ارشد محمود اعوان
غزہ کے ساحل کے قریب بین الاقوامی پانیوں میں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں گلوبل صمود فلوٹیلا کی روک تھام نے دنیا بھر میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے۔ یہ قافلہ، جس میں 40 سے زائد شہری جہاز شامل تھے، بنیادی طور پر ادویات اور خوراک لے کر غزہ کے محصور عوام تک پہنچنے کے لیے نکلا تھا، لیکن اسرائیلی کارروائی نے اسے ایک بڑے سفارتی اور اخلاقی بحران میں بدل دیا۔ اس کارروائی میں پاکستان کے سابق سینیٹر مشتا ق احمد خان سمیت 443 سے زائد کارکن گرفتار کیے گئے۔ ان کی گرفتاری نے پاکستان کے کردار کو عالمی انسانی جدوجہد میں مزید نمایاں کر دیا ہے۔ پاکستان نے فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قافلہ صرف انسانی امداد لے کر جا رہا تھا۔
فلوٹیلا میں ڈاکٹر، طلبہ، ارکان پارلیمنٹ، انسانی حقوق کے کارکن اور عالمی شہرت یافتہ شخصیات شامل تھیں۔ اس کا مقصد جنگ نہیں بلکہ محصور عوام تک امداد پہنچانا تھا۔ مگر اسرائیل کے سخت ردعمل نے یہ واضح کر دیا کہ وہ خوراک اور ادویات کو بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی افواج نے واٹر کینن، شاک ڈیوائسز اور مسلح محافظوں کے ذریعے جہازوں کو روکا اور کارکنوں کو حراست میں لے لیا۔ صرف ایک جہاز عارضی طور پر غزہ کی حدود میں داخل ہوا لیکن اس کا رابطہ منقطع ہو گیا۔
دنیا بھر سے ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ جنوبی افریقہ نے نیلسن منڈیلا کے پوتے منڈلا منڈیلا کی گرفتاری پر وضاحت طلب کی ہے۔ اٹلی کی مزدور یونینوں نے ہڑتال کا اعلان کیا، جبکہ کولمبیا نے اسرائیل کے سفارتکاروں کو ملک بدر کر دیا۔ حقوق کی تنظیموں نے اسے غیرقانونی قرار دیا ہے اور ماہرین قانون نے خبردار کیا ہے کہ اگر انسانی امداد دینا بھی جرم بن گیا تو یہ عالمی قانون کے لیے خطرناک نظیر ثابت ہوگی۔
غزہ میں بھوک اور قحط کی صورتحال اقوام متحدہ نے خود تسلیم کی ہے۔ ایسے حالات میں امدادی سامان کسی علامت کا نہیں بلکہ زندگی کی لکیر کا درجہ رکھتا ہے۔ اسرائیل کا اسے روکنا انسانی اصولوں کی پامالی ہے۔ جنیوا کنونشن کے تحت قابض قوت پر لازم ہے کہ وہ شہریوں تک ضروری سامان پہنچنے دے۔ اسرائیل کا یہ عمل عالمی قوانین کے بنیادی ڈھانچے کو چیلنج کر رہا ہے۔
پاکستان کے لیے مشتا ق احمد خان کی گرفتاری خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ محض ایک شخص کی آزادی نہیں بلکہ اس حق کی علامت ہے کہ قومیں اور افراد انسانی اقدار کے دفاع کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ یہ واقعہ پاکستان کو مزید فعال کردار ادا کرنے پر مجبور کرے گا تاکہ عالمی فورمز پر انسانی امداد کے لیے محفوظ راستے کھولنے کی کوشش کی جا سکے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا دنیا انسانی ہمدردی کو بھی محصور ہونے دے گی؟ اگر گرفتار کارکن رہا نہ کیے گئے اور غزہ کے لیے محفوظ بحری راستہ نہ کھولا گیا تو یہ پیغام جائے گا کہ رحم دلی بھی محاصرے کا شکار ہو سکتی ہے۔ یہ خطرناک راستہ ہے جسے روکنے کے لیے عالمی برادری کو فیصلہ کن اقدام کرنا ہوگا۔
گلوبل صمود فلوٹیلا صرف جہازوں کا قافلہ نہیں تھا بلکہ عالمی ضمیر کا اعلان تھا۔ یہ غزہ کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور بھوک و محاصرے کے خلاف آواز تھی۔ اس کا روکنا صرف فلسطین کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ اگر دنیا خاموش رہی تو تاریخ میں یہ لمحہ انسانیت کے انحطاط کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔