مبشر ندیم
اسلام آباد — سیلاب سے متاثرہ افراد کی امداد کے طریقۂ کار پر بظاہر ایک معمولی سا اختلاف حکمران اتحاد کی دو بڑی جماعتوں، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی، کے درمیان ایک بڑے سیاسی بحران میں بدل گیا ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جس معاملے کو ابتدا میں “گھر کا مسئلہ” قرار دیا تھا، وہ اب روزانہ کے ٹی وی بیانات، پارلیمانی واک آؤٹس، اور بڑھتی ہوئی سیاسی تلخیوں تک جا پہنچا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کو دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان بڑھتی خلیج کم کرنے کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ یہ تنازع دراصل صوبائی اختیارات، وسائل کی تقسیم، اور سیاسی بیانیے کے گہرے اختلافات کو آشکار کرتا ہے۔
بحران کی ابتدا اس وقت ہوئی جب پنجاب میں سیلاب متاثرین کی امداد کے طریقۂ کار پر اختلاف سامنے آیا۔ پیپلز پارٹی، جو سماجی تحفظ کی علمبردار سمجھی جاتی ہے، نے مطالبہ کیا کہ امداد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے تقسیم کی جائے۔ شیری رحمٰن اور خاتونِ اوّل آصفہ بھٹو زرداری سمیت کئی پی پی رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ یہی پروگرام امداد کی منصفانہ اور تیز تر تقسیم کا سب سے مؤثر طریقہ ہے۔ دوسری جانب، مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت نے اسے مسترد کرتے ہوئے اپنے وسائل کے استعمال کا فیصلہ کیا اور بی آئی ایس پی کی کارکردگی پر سوال اٹھایا۔ جب رانا ثناءاللہ نے اس پروگرام کی “مکمل از سرِ نو تشکیل” یا حتیٰ کہ اس کے خاتمے کی بات کی، تو پیپلز پارٹی نے اسے سیاسی مخالفت کے نام پر انسانی ہمدردی کے وقت کو خراب کرنے کے مترادف قرار دیا۔
تنازع نے شدت اس وقت اختیار کی جب پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے طنزیہ انداز میں کہا کہ “ہم ان لوگوں سے مشورہ نہیں لیں گے جنہوں نے سندھ کو کھنڈر بنا دیا۔” جلد ہی دونوں جماعتوں کے اعلیٰ رہنما اس لفظی جنگ میں کود پڑے۔ بلاول بھٹو زرداری نے بی آئی ایس پی کا بھرپور دفاع کیا، جب کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے الزام لگایا کہ پیپلز پارٹی سیلاب کے معاملے کو سیاسی فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ صرف نقد امداد متاثرہ افراد کے لیے کافی نہیں جو اپنے گھر، مویشی اور فصلیں کھو چکے ہیں — “لوگ دس ہزار روپے سے کیا کریں گے؟”
یہ تنازع اس وقت ایک آئینی اور صوبائی حقوق کے بحران میں بدل گیا جب مریم نواز نے 29 ستمبر کو ایک پرجوش تقریر میں متنازع چولستان کینالز منصوبے کا دفاع کیا — جو سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کی تقسیم پر ایک پرانا تنازع ہے۔ یہ منصوبہ اپریل میں کونسل آف کامن انٹرسٹ میں اتفاق نہ ہونے کے باعث روکا گیا تھا۔ مریم نواز کا یہ کہنا کہ “یہ میرا پانی ہے، میرا پیسہ ہے، سب میرا ہے” وفاقیت کے اصولوں اور سندھ جیسے زیریں صوبے کے خدشات کو براہِ راست چیلنج کرتا ہے۔ انہوں نے پیپلز پارٹی کے بین الاقوامی امداد کے مشورے کو مسترد کرتے ہوئے کہا، “پنجاب کبھی تمہارے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا، تم بھی پنجاب کے معاملات سے دور رہو۔”
اس بیان پر پیپلز پارٹی نے سخت ردِعمل دیا اور اگلے ہی دن قومی اسمبلی اور سینیٹ سے واک آؤٹ کیا۔ نوید قمر نے مریم نواز کے بیانات کو “قابلِ افسوس” قرار دیتے ہوئے کہا کہ دریائی پانی کسی ایک صوبے کی ملکیت نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔ ان کے جذباتی خطاب سے یہ واضح ہوا کہ اتحاد خطرے میں ہے۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو وضاحت اور معذرت کرنی پڑی، تاہم کشیدگی کم نہ ہوئی۔
بعد ازاں دونوں جماعتوں کے سینئر رہنماؤں کی ملاقات ہوئی، جس میں پیپلز پارٹی نے مریم نواز سے “لہجہ نرم کرنے” کی درخواست کی، مگر انہوں نے دو دن بعد ہی واضح طور پر کہا کہ وہ اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور پنجاب کے مفادات پر “کبھی معافی نہیں مانگیں گی۔” بحران اس حد تک بڑھ گیا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کو اپنے بھائی نواز شریف سے مدد لینا پڑی تاکہ معاملات مزید نہ بگڑیں۔ اگرچہ نائب وزیراعظم اسحٰق ڈار نے امید ظاہر کی کہ اختلافات ختم ہو جائیں گے، مگر پیپلز پارٹی نے 6 اکتوبر کو ایک اور واک آؤٹ کیا، جب شیری رحمٰن نے “پنجاب سے ابھرنے والے تقسیم پسندانہ بیانیے” پر سخت تنقید کی۔
بالآخر صدر آصف علی زرداری کو مداخلت کرنا پڑی، جنہوں نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو فوری طور پر کراچی طلب کیا۔ اس کے بعد مریم نواز نے اپنا لہجہ کچھ نرم کیا اور اپنی سیاسی توجہ پی ٹی آئی پر مرکوز کر لی۔ تاہم، شیری رحمٰن نے خبردار کیا کہ سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی حمایت کے بغیر حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مصالحت کی کوششیں جاری ہیں، مگر اتحاد کی نازک نوعیت ایک بار پھر سامنے آ گئی ہے — جہاں پالیسی پر معمولی اختلاف بھی حکومت کے لیے وجودی بحران بن سکتا ہے۔