پشتون مسئلے کی حقیقت اور افغان پالیسی کی غلط سمت

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

جنوبی اور وسطی ایشیا میں پشتون مسئلہ ہمیشہ سیاسی مفادات، تاریخی مغالطوں اور قوم پرستانہ نعروں کا شکار رہا ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً چھ کروڑ پشتون آباد ہیں، جب کہ افغانستان میں ان کی تعداد بمشکل دو کروڑ کے قریب ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پشتونوں کی اکثریت یعنی تقریباً تین چوتھائی پاکستان کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر رہتی ہے — جہاں وہ ریاست کے سیاسی، عسکری اور معاشی ڈھانچے کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔

Follow Republic Policy

یہ اعداد و شمار اس حقیقت کو مزید مستحکم کرتے ہیں کہ ڈیورنڈ لائن نہ صرف ایک تاریخی حقیقت ہے بلکہ جغرافیائی اور سیاسی اعتبار سے ایک غیر متنازعہ بین الاقوامی سرحد بھی ہے۔ افغانستان کا اس سرحد پر پرانا مؤقف زمینی حقائق سے دور اور سفارتی لحاظ سے کمزور ہے۔ نسلی وابستگی کو ریاستی خودمختاری پر فوقیت دینا نہ صرف غیر دانشمندانہ ہے بلکہ علاقائی امن کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

Follow Republic Policy on YouTube

پاکستان کے پشتون اپنے آپ کو پاکستانی قومیت کا حصہ سمجھتے ہیں اور ملکی سیاست، معیشت، فوج اور سول اداروں میں بھرپور نمائندگی رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر کابل اپنی خارجہ پالیسی کو نسلی بنیادوں پر استوار رکھتا ہے تو وہ نہ صرف علاقائی سطح پر تنہا ہو جائے گا بلکہ اپنی داخلی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دے گا۔

Follow Republic Policy on X

افغانستان کے لیے عقلمندانہ راستہ یہی ہے کہ وہ حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ڈیورنڈ لائن کو ایک طے شدہ سرحد تسلیم کرے اور پاکستان کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرے۔ کیونکہ اگر نسلی دلائل پر زور دیا جائے تو یہ موقف دراصل پاکستان کے حق میں زیادہ مضبوط بنتا ہے، کیوں کہ اس کے تحت افغان پشتون علاقے پاکستان کے اندر آتے ہیں۔

Follow Republic Policy on Facebook

You said:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos