پاکستان اور ملائیشیا کا اشتراک: وعدوں سے عملی اقدامات تک

[post-views]
[post-views]

ظفر اقبال

پاکستان اور ملائیشیا کے تعلقات ہمیشہ سطحی سفارتی نمائش کے بجائے گہرائی اور حقیقت پسندی پر مبنی رہے ہیں۔ دونوں ممالک، جو مسلم اکثریتی ہیں، مشترکہ ایمان، ترقی کے نظریات اور عملی تعاون کے جذبے سے منسلک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک غیر یقینی دنیا میں ایک دوسرے کے لیے قابلِ اعتماد شراکت دار بنے رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ پیش رفت—یعنی ملائیشیا کا پاکستان سے 200 ملین ڈالر مالیت کا حلال گوشت درآمد کرنے کا فیصلہ—اس دوستی کو ایک نئے اور عملی مرحلے میں داخل کرتی ہے، جہاں علامتی تعلق حقیقی معاشی تعاون میں ڈھلتا دکھائی دیتا ہے۔

ویب سائٹ

پاکستان کے لیے یہ محض ایک تجارتی معاہدہ نہیں بلکہ اعتماد کا اظہار ہے، خصوصاً ایک ایسے ملک کی جانب سے جو عالمی سطح پر حلال صنعت، ادارہ جاتی نظم و ضبط اور شفاف طرزِ حکمرانی کے لیے معروف ہے۔ ملائیشیا کا پاکستانی مصنوعات پر بھروسہ پاکستان کے سیاسی وعدوں اور ریگولیٹری نظام پر اعتماد کی علامت ہے۔ یہ جنوبی ممالک کے درمیان ایک ایسی اقتصادی شراکت داری کا آغاز بھی ہے جو انحصار نہیں بلکہ باہمی تکمیلیت پر مبنی ہے۔

یوٹیوب

ملائیشیا کا فیصلہ اس کی وسیع تر پالیسی کے عین مطابق ہے جس کے تحت وہ حلال سپلائی چین کو متنوع بنا رہا ہے اور مسلم معیشتوں کے ساتھ تجارتی و تعلیمی تعلقات کو فروغ دے رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع صرف برآمدات تک محدود نہیں بلکہ اس میں ملائیشیا کے ماڈل سے سیکھنے کے وسیع امکانات ہیں—چاہے وہ فنی تربیت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زرعی صنعت یا معیار کی نگرانی کے شعبے ہوں۔ اگر پاکستان نے سنجیدگی دکھائی تو یہ تعلقات امداد کے بجائے علم و تجربے کے تبادلے پر مبنی شراکت میں بدل سکتے ہیں۔

ٹوئٹر

تاہم، اس امید کے ساتھ خود احتسابی بھی ضروری ہے۔ عالمی حلال مارکیٹ میں پاکستان کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے—وجہ مواقع کی کمی نہیں بلکہ ادارہ جاتی غفلت اور غیر مستقل ضابطہ کاری ہے۔ دنیا کی بڑی مویشی آبادی رکھنے کے باوجود پاکستان بین الاقوامی حلال تجارت میں نمایاں مقام حاصل نہ کر سکا۔ نسلوں کی مسلسل آمیزش سے مویشیوں کی شناخت اور نسب نامہ غیر واضح ہو گیا ہے، جس کے باعث یورپی یونین جیسے سخت معیار رکھنے والے ممالک میں پاکستانی مصنوعات کو تسلیم کروانا مشکل ہو گیا ہے۔

فیس بک

یہ صنعت دستاویزات، شفافیت اور تصدیق کے اصولوں پر قائم ہے، لیکن پاکستان کے کمزور تصدیقی نظام نے اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک ایسے ملک کے لیے جو مویشیوں سے مالا مال ہے، مگر ضابطہ کاری میں کمزور ہے، یہ تضاد باعثِ تشویش ہے۔ اس لیے ملائیشیا کا نیا معاہدہ پاکستان کے لیے ایک طرف اعتماد کا اظہار ہے تو دوسری جانب ایک انتباہ بھی۔

ٹک ٹاک

اعتماد اس لیے کہ دنیا پاکستان کی برآمدات پر یقین کر سکتی ہے جب وہ شفافیت، سائنسی معیار اور سیاسی عزم کے ساتھ پیش کی جائیں۔ انتباہ اس لیے کہ اس شراکت کو برقرار رکھنے کا دار و مدار سفارت کاری سے زیادہ ادارہ جاتی نظم و ضبط پر ہے۔ حلال انڈسٹری اب محض مذہبی شناخت نہیں بلکہ عالمی سطح پر ضوابط، ٹریس ایبلٹی اور سرٹیفیکیشن کا نظام بن چکی ہے۔ پاکستان کو اپنے ضابطہ جاتی ڈھانچے کو اسی کے مطابق جدید بنانا ہوگا۔

انسٹاگرام

سیاسی سطح پر وزیرِاعظم شہباز شریف کا پیشہ ورانہ تربیت، طرزِ حکمرانی اور مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں پر زور دینا ملائیشیا کی کامیابی کے حقیقی پہلوؤں کو سمجھنے کی علامت ہے۔ کوالالمپور کا نظامِ حکومت—منصوبہ بندی، میرٹ اور احتساب پر مبنی—پاکستان کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔ تجارت سے آگے بڑھ کر، ملائیشیا کا مسئلہ فلسطین پر پاکستان کے مؤقف کی حمایت اور جنوبی ایشیا میں امن کی خواہش دونوں ممالک کے درمیان اخلاقی و سفارتی ہم آہنگی کو ظاہر کرتے ہیں۔

ویب سائٹ

تاہم، یہ شراکت تب ہی ثمر آور ہوگی جب وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ صرف اعلانات سے کام نہیں چلے گا۔ پاکستان کو حلال سرٹیفیکیشن کی مضبوط نگرانی، شفاف تجربہ گاہوں اور قابلِ تصدیق سپلائی چین کو یقینی بنانا ہوگا۔ بصورتِ دیگر، پتر جایا میں ہونے والے وعدے محض سیاسی بیانات تک محدود رہ جائیں گے۔

یہ نیا تعاون پاکستان کے مسلم دنیا میں کردار کی ایک بڑی حقیقت کو بھی آشکار کرتا ہے۔ بدقسمتی سے، اسلام آباد کی سفارت کاری اکثر جذبات پر مبنی رہی ہے، پالیسی پر نہیں۔ ملائیشیا کے ساتھ شراکت داری پاکستان کو ایک موقع دیتی ہے کہ وہ اپنی سفارتی حکمتِ عملی کو عملی اور ادارہ جاتی بنیادوں پر استوار کرے۔ اگر پاکستان اپنے وعدوں کو اداروں کے ذریعے مستحکم کر لے تو وہ نہ صرف تجارت میں بلکہ ایک معتبر اقتصادی شراکت دار کے طور پر بھی اپنی ساکھ قائم کر سکتا ہے۔

یوٹیوب

چیلنج اندرونی ہے—بہتر حکمرانی، بیوروکریٹک رکاوٹوں میں کمی، اور شخصیات کے بجائے اداروں کو طاقتور بنانا۔ اگر پاکستان حلال معیشت کو درست سمت میں استوار کرے تو یہ مذہبی اقدار اور جدید معیشت کے امتزاج کا بہترین نمونہ بن سکتی ہے، جہاں اخلاقی ساکھ عالمی معیار سے ہم آہنگ ہو۔

بالآخر، ملائیشیا نے شراکت کا ہاتھ بڑھایا ہے، اب یہ پاکستان پر ہے کہ وہ اپنے وعدے پورے کرے۔ برسوں سے دونوں ممالک بھائی چارے کی بات کرتے آئے ہیں، اب وقت ہے کہ اس جذبے کو ادارہ جاتی نظام میں بدلا جائے۔ یہ تعلق عملی سفارت کاری کی ایک مثال بن سکتا ہے—ایسا تعلق جو باہمی احترام، مشترکہ ترقی اور ادارہ جاتی سیکھنے پر مبنی ہو۔

پاکستان کی ساکھ اب عمل پر منحصر ہے، دعووں پر نہیں۔ اگر اسلام آباد اپنے وعدوں کو پورا کر سکا تو ملائیشیا کا ماڈل پاکستان کے لیے نہ صرف عالمی حلال معیشت بلکہ پوری مسلم دنیا میں ایک نئی شناخت تشکیل دے سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر، یہ موقع بھی ماضی کی ناکامیوں میں شامل ہو جائے گا۔

اب وقت ہے کہ پاکستان یہ ثابت کرے کہ ایمان پر مبنی معیشتیں بھی نظم، قابلیت اور اعتماد پر قائم ہو سکتی ہیں۔

ٹوئٹر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos