ڈاکٹر شبانہ صفدر خان
دنیا ایک خطرناک دورِ بھوک میں داخل ہو رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے عالمی ادارۂ خوراک نے سخت انتباہ جاری کیا ہے کہ جنگ زدہ ممالک مثلاً افغانستان، کانگو، صومالیہ، سوڈان اور ہیٹی میں تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ افراد اب بھوک کے بحران سے بڑھ کر ہنگامی حالات میں جا رہے ہیں۔ ادارے کی تازہ رپورٹ (یعنی زندگی کی ڈور خطرے میں) کے مطابق، سال 2025 میں عالمی فنڈنگ میں 40 فیصد کمی متوقع ہے۔ گزشتہ سال کا بجٹ 10 ارب ڈالر تھا، جب کہ اب صرف 6.4 ارب ڈالر دستیاب ہوں گے۔ جنگوں، بڑھتی مہنگائی اور ماحولیاتی آفات سے کمزور پڑا عالمی خوراکی نظام اب امداد دینے والے ممالک کی بے حسی کے باعث ٹوٹنے کے قریب ہے۔
مغربی طاقتیں، جو کبھی خود کو انسانیت کے علمبردار قرار دیتی تھیں — امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی — اب اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ انہوں نے مشرقِ وسطیٰ سے لے کر افریقہ تک کھربوں ڈالر خرچ کر کے خطے غیر مستحکم کیے، مگر انہی تباہ حال معاشروں کو دوبارہ آباد کرنے یا ان کے لوگوں کو خوراک دینے سے منہ موڑ لیا۔عالمی ادارۂ خوراک کے مطابق، تقریباً ایک کروڑ ستتر لاکھ لوگ جلد ہی “بحران” سے “ہنگامی” سطح کی بھوک میں داخل ہو سکتے ہیں — یعنی بین الاقوامی پیمانے پر قحط سے صرف ایک درجہ دور۔ دنیا بھر میں پہلے ہی 319 ملین افراد خوراک کی کمی کا شکار ہیں، جبکہ 44 ملین انتہائی خطرناک حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔
یہ انسانی بحران سب سے زیادہ اُن نازک ریاستوں کو متاثر کرے گا جہاں معیشت کمزور اور حکومت غیر مستحکم ہے، مثلاً پاکستان۔ یہاں غذائی عدم تحفظ تیزی سے بڑھ رہی ہے — معیشتی زوال، سیاسی ابتری اور اشرافیہ کی بے حسی نے حالات کو سنگین بنا دیا ہے۔ پاکستان میں بھوک کا مسئلہ محض قلتِ خوراک کا نہیں بلکہ بدانتظامی اور عدم توجہی کا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، پانچ سال سے کم عمر کے چار میں سے ایک بچہ جسمانی و ذہنی نشوونما میں پسماندہ ہے، 17.7 فیصد بچے شدید کمزوری کا شکار ہیں، اور تقریباً 29 فیصد کا وزن نارمل سے کم ہے۔ 2023 کی رپورٹ کے مطابق 21 لاکھ سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ صرف اعداد نہیں — یہ لاکھوں مستقبل ہیں جو پیدا ہونے سے پہلے ہی کمزور کر دیے گئے ہیں۔
دہائیوں تک پاکستان کے حکمرانوں نے غذائیت کو ایک “غیر ملکی امداد” کے مسئلے کے طور پر دیکھا اور اسے بین الاقوامی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ مگر اب جب عالمی امداد سکڑ رہی ہے، تو یہ نظام منہدم ہو چکا ہے۔ بیرونی انحصار نے ایک ایسی سیاسی ثقافت کو جنم دیا ہے جس میں غریبوں کو کھانا دینا “خیرات” سمجھا جاتا ہے، “ذمہ داری” نہیں۔ امریکہ اور عالمی اداروں کی امداد میں کمی پاکستان کے لیے ایک تنبیہ ہونی چاہیے: کوئی بھی خودمختار ریاست اپنے بچوں کی بقا کو دوسروں کے سپرد نہیں کر سکتی۔
غذا اور غذائیت کو اب قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔ بھوک سے نڈھال قوم نہ معیشت چلا سکتی ہے، نہ علم و ہنر پیدا کر سکتی ہے، نہ ہی اچھی حکمرانی کر سکتی ہے۔ پاکستان کی معاشی اصلاحات، مالی استحکام یا سرمایہ کاری کی حکمتِ عملیاں سب بے معنی ہیں اگر قوم کے بچے بھوکے اور بیمار رہیں۔ ریاست کا اصل امتحان جی ڈی پی کی رفتار نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس کے غریب شہریوں کو پیٹ بھر کر کھانا ملتا ہے یا نہیں۔
پاکستان کو اس بحران سے نمٹنے کے لیے تین سطحوں پر کارروائی کرنا ہوگی — ادارہ جاتی، سماجی اور بین الاقوامی۔ ادارہ جاتی سطح پر، حکومت کو غذائیت کو صحت اور تعلیم کے منصوبوں میں شامل کرنا چاہیے۔ صوبائی حکومتوں کو شہروں کی کچی آبادیوں اور دور دراز علاقوں میں موبائل فوڈ نیٹ ورک اور عوامی کچن قائم کرنے چاہئیں۔ اسکولوں میں “اسکول فیڈنگ پروگرامز” شروع کیے جا سکتے ہیں تاکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو خوراک بھی فراہم ہو۔
سماجی سطح پر، خواتین کی غذائیت اور ماؤں کی صحت کو ترجیح دینا ناگزیر ہے۔ ماؤں کی غذائی کمی کم وزن بچوں اور پسماندہ نشوونما کے تسلسل کو جنم دیتی ہے۔ مقامی حکومتوں، این جی اوز اور ضلعی انتظامیہ کو مشترکہ طور پر بچوں اور ماؤں کے لیے متوازن خوراک کی مہمات، دودھ پلانے کی تعلیم، اور خوراک میں غذائیت شامل کرنے کے منصوبے شروع کرنے چاہئیں۔ صاف پانی تک رسائی بھی غذائیت کا بنیادی جز ہے، جس کے لیے دیہی علاقوں میں سستے فلٹریشن پلانٹس اور پانی کی فراہمی کے نظام ضروری ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر، پاکستان کو نئی شراکتیں تعمیر کرنی چاہئیں — انحصار کے لیے نہیں بلکہ مہارت کے لیے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے، بالخصوص عالمی ادارۂ خوراک ، کو تکنیکی معاونت کے لیے شراکت دار بنایا جا سکتا ہے تاکہ مقامی غذائیت کے ماہرین کی تربیت، بھوک کی نقشہ سازی، اور پائیدار زرعی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں اور منصوبہ بندی کے محکموں کو مشترکہ طور پر علاقائی غذائی بحران کی پیشگوئی اور زرعی سبسڈی کو غذائیت کے نتائج سے منسلک کرنا چاہیے، نہ کہ سیاسی مفادات سے۔
انسانی بقا کے بغیر معاشی بحالی ناممکن ہے۔ اگر پاکستان کے 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار رہیں تو کوئی بھی مالی اصلاح یا بیرونی سرمایہ کاری دیرپا ترقی نہیں لا سکتی۔ صحت اور خوراک کی فراہمی کوئی خیراتی سہولت نہیں بلکہ قومی بقا کا تقاضا ہے۔ ہر بچّے کو کھانا اور تعلیم دینے پر خرچ ہونے والا ایک روپیہ دس گنا زیادہ ثمر دیتا ہے — معیشت، صحت اور استحکام کی صورت میں۔
عالمی بھوک کا بحران دراصل دنیا کی اخلاقی زوال پذیری کا آئینہ ہے — اور پاکستان اس کا تماشائی نہیں رہ سکتا۔ بین الاقوامی امداد کے خاتمے نے ایک حقیقت واضح کر دی ہے: جو قومیں اپنے لوگوں کو نہیں کھلاتیں، وہ پیچھے رہ جاتی ہیں۔ اگر پاکستان ایک مضبوط ریاست بننا چاہتا ہے تو اسے بھوک کو آئینی ایمرجنسی اور خوراک کو حکمرانی کا فریضہ سمجھنا ہوگا، نہ کہ خیرات۔
دنیا کی بھوک کے سامنے خاموشی ناقابلِ معافی ہے، مگر پاکستان کی اپنی بھوکی آبادی کے سامنے خاموشی ایک خود ساختہ المیہ ہوگی۔ اب وقت ہے کہ انحصار کی جگہ خودداری لے، اور خیرات کی جگہ جوابدہی — تاکہ عوام کو کھانا دینا رحم نہیں، انصاف سمجھا جائے۔