وفاقی نظام کی بقا انتظامی خودمختاری میں

[post-views]
[post-views]

اداریہ

پارلیمانی جمہوریت میں دو بنیادی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ایک قانون سازی اور دوسری حکومت کا احتساب۔ جب منتخب نمائندے انتظامیہ کو جواب دہ نہیں بناتے تو حکمرانی غیر شفاف اور غیر جمہوری ہوجاتی ہے، جو جمہوریت کی اصل روح کے خلاف ہے۔

ریپبلک پالیسی ویب سائٹ فالو کریں

آئین پاکستان کی اٹھارویں ترمیم نے وفاق اور صوبوں کے درمیان قانون سازی، انتظامی اور مالی اختیارات کو واضح طور پر تقسیم کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ وفاقی افسر شاہی اب بھی نوآبادیاتی دور کے پرانے قواعد کے تحت صوبائی عہدوں پر قابض ہے۔ اس وجہ سے صوبائی اسمبلیاں ان افسران سے جواب نہیں لے سکتیں کیونکہ ان کے تمام امور اسلام آباد میں طے کیے جاتے ہیں۔

ریپبلک پالیسی یوٹیوب پر فالو کریں

یہ صورتِ حال پارلیمانی وفاقیت کے پورے نظام کو کمزور کر رہی ہے۔ اگر صوبائی اسمبلیوں کے پاس اپنی انتظامیہ پر اختیار نہیں تو ان کی خودمختاری محض دکھاوا بن جاتی ہے۔ جمہوریت کا تقاضا ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے ہر سرکاری اہلکار کا احتساب ہو، مگر وفاقی افسر شاہی صوبائی حکومتوں کے آئینی اختیارات کو محدود کر رہی ہے۔

ریپبلک پالیسی ایکس پر فالو کریں

تشویش ناک بات یہ ہے کہ ایسی خبریں ہیں کہ وفاقی افسر شاہی آئین میں ترمیم کر کے صوبائی عہدوں پر اپنے مستقل قبضے کو قانونی شکل دینا چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان ایک وحدانی ریاست بن جائے گا، جو آئین کے وفاقی ڈھانچے کے منافی ہے۔

ریپبلک پالیسی فیس بک پر فالو کریں

لہٰذا ضروری ہے کہ وفاقیت کی روح نہ صرف قانون سازی اور مالیات میں بلکہ انتظامی ڈھانچے میں بھی برقرار رکھی جائے۔ حقیقی صوبائی خودمختاری اسی وقت ممکن ہے جب صوبے اپنی بیوروکریسی پر مکمل اختیار حاصل کریں۔ انتظامی وفاقیت ہی جمہوری وفاقیت کی اصل بنیاد ہے۔

ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک پر فالو کریں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos