ادارتی تجزیہ
ستائیسویں آئینی ترمیم پر ہونے والی بحث نے پاکستان کے وفاقی نظام میں ایک بار پھر ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ یہ مجوزہ ترمیم بظاہر انتظامی اصلاحات کا خاکہ پیش کرتی ہے لیکن درحقیقت یہ صوبائی خودمختاری، آئینی توازن اور وفاقی اعتماد کے بنیادی ڈھانچے کو متاثر کر سکتی ہے۔ ترمیم کے تحت ایک آئینی عدالت کے قیام، این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی، ایگزیکٹو مجسٹریسی کی بحالی، اور آرٹیکل 243 سمیت کئی اہم آئینی شقوں میں ترمیم کی تجاویز شامل ہیں۔ ان اقدامات کو بعض ماہرین انتظامی اصلاحات کے نام پر مرکزیت کی بحالی قرار دے رہے ہیں۔
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو قانون سازی، مالیات اور انتظامیہ کے میدان میں جو اختیارات حاصل ہوئے، وہ وفاقیت کی مضبوطی اور جمہوریت کے استحکام کے ضامن تھے۔ اس ترمیم نے آئین کے آرٹیکل 97، 137 اور 240 کے تحت ایک واضح وفاقی تقسیمِ اختیارات قائم کی۔ اب ستائیسویں ترمیم اگر ان بنیادی اصولوں کو کمزور کرتی ہے تو یہ صرف ایک قانونی نہیں بلکہ سیاسی پسپائی بھی ثابت ہوگی۔ وفاقی اکائیوں کو احساسِ محرومی کا شکار کر کے کسی ریاست کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔
سیاسی طور پر بھی یہ وقت آئینی تجربات کے لیے موزوں نہیں۔ ملک شدید مالیاتی بحران، سیاسی انتشار اور انتظامی افراتفری کا شکار ہے۔ ایسے ماحول میں آئین میں بڑی ترامیم کرنا ایک خطرناک جُوئے کے مترادف ہے۔ جمہوری روایت یہی ہے کہ آئینی تبدیلیاں ہمہ گیر قومی اتفاقِ رائے سے کی جائیں۔ وفاقی نظام میں کسی بھی بڑی اصلاح سے پہلے پارلیمانی مباحثہ، صوبائی اسمبلیوں کی منظوری اور حتیٰ کہ عوامی ریفرنڈم کی راہ اپنائی جانی چاہیے تاکہ فیصلہ عوامی تائید سے مضبوط ہو۔
آئینی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ وفاقیت صرف قانونی شقوں سے نہیں بلکہ اعتماد، شراکت داری اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم سے مضبوط ہوتی ہے۔ اگر مرکز اور صوبے ایک دوسرے پر شک کرنے لگیں تو آئینی ڈھانچہ کمزور ہو جاتا ہے۔ ستائیسویں ترمیم کا سب سے بڑا خطرہ یہی ہے کہ یہ وفاقی اکائیوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کو مزید گہرا کرے گی۔
اس ترمیم میں آئینی عدالت کے قیام کی تجویز بھی غور طلب ہے۔ پاکستان میں عدالتی نظام پہلے ہی بوجھ تلے دب چکا ہے۔ نیا آئینی ادارہ بنانا اس وقت زیادہ تر سیاسی مفادات کے تابع دکھائی دیتا ہے نہ کہ اصلاحاتی مقصد کے۔ اسی طرح این ایف سی ایوارڈ کی ازسرِنو تقسیم کی بات، صوبوں کے مالیاتی حقوق کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اگر مالیاتی اختیارات واپس مرکز کی طرف منتقل ہوئے تو وفاقیت کا وجود علامتی رہ جائے گا۔
یہ بات بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی کہ آئینی ترمیم صرف قانون سازی کا عمل نہیں بلکہ ایک سماجی معاہدہ ہوتا ہے۔ اسے عوامی اعتماد اور سیاسی اتفاقِ رائے کے بغیر لاگو کرنا آئین کے جمہوری فلسفے سے انحراف ہے۔ وفاقی اکائیوں کو اعتماد میں لیے بغیر کی جانے والی ترامیم وفاق کو کمزور، اور ریاست کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔
اس پس منظر میں ستائیسویں آئینی ترمیم کو کسی بھی جلدبازی کے بغیر کھلے مکالمے، پارلیمانی شفافیت اور عوامی شرکت کے ذریعے طے کیا جانا چاہیے۔ اصلاح کی ہر کوشش کا مقصد وفاقی اعتماد کو مضبوط کرنا ہونا چاہیے نہ کہ اسے کمزور کرنا۔ بصورتِ دیگر یہ ترمیم آئینی اصلاح نہیں بلکہ ایک نیا بحران پیدا کرے گی۔











