مبشر ندیم
پاکستان میں جمہوریت ایک بار پھر کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ وہ پارلیمنٹ جو جمہوری نظام کا مرکز اور عوامی نمائندگی کی علامت ہونی چاہیے تھی، آج ایک رسمی ادارے میں بدل چکی ہے۔ مجوزہ ستائیسویں آئینی ترمیم نے اس کمزوری کو مزید واضح کر دیا ہے۔ اس ترمیم کے تحت آئینی عدالت کے قیام، این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی، اور اختیارات کو مرکز میں مرکوز کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں، جو نہ صرف وفاقی توازن بلکہ عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں کی خودمختاری کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
المیہ یہ ہے کہ وہی منتخب نمائندے جو پارلیمنٹ کی بالادستی کے محافظ ہونے چاہییں، وہی اس کے زوال میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ اب قانون سازی کا نہیں بلکہ منظوری دینے کا ادارہ بن گئی ہے۔ بیشتر اراکین اپنی جماعتوں کے مفادات اور قیادت کے حکم کے تابع ہیں، نہ کہ آئین اور عوام کے نمائندے کے طور پر۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنی اصل حیثیت اور اخلاقی وقار دونوں کھو چکی ہے۔
عدلیہ بھی سیاست کے اس کھیل سے محفوظ نہیں رہی۔ جب عدالتی فیصلے سیاست دانوں کے حق میں آتے ہیں تو وہ عدلیہ کو آزاد قرار دیتے ہیں، اور جب فیصلے ان کے خلاف ہوتے ہیں تو عدلیہ پر جانبداری کے الزامات لگا دیتے ہیں۔ یہ دوہرا رویہ اداروں کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ ستائیسویں ترمیم کے ذریعے مجوزہ آئینی عدالت عدلیہ کے تنازعات کو حل کرنے کے بجائے اسے مزید سیاسی دباؤ میں لا سکتی ہے۔ جب عدلیہ اور پارلیمنٹ دونوں باہمی احترام کھو دیں تو جمہوریت ادارہ جاتی انتشار میں بدل جاتی ہے۔
اٹھارویں آئینی ترمیم نے صوبائی خودمختاری اور ادارہ جاتی توازن کے تصور کو مضبوط کیا تھا۔ مگر اب ستائیسویں ترمیم کے ذریعے اختیارات کو دوبارہ مرکز میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ قدم اصلاح نہیں بلکہ پسپائی ہے، ایک ایسا عمل جو وفاقی روح کے خلاف ہے۔ بدقسمتی سے وہی پارلیمنٹ جو وفاقی نظام کی محافظ ہونی چاہیے تھی، اب مرکزیت کی حامی بن گئی ہے۔ یہ جمہوری قیادت کے فکری زوال کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کو سب سے زیادہ نقصان آمروں نے نہیں بلکہ خود جمہوری رہنماؤں نے پہنچایا ہے۔ وہ سیاست دان جو کبھی پارلیمنٹ کی بالادستی کے نعرے لگاتے تھے، اب اسی پارلیمنٹ کو سیاسی مفادات کے تابع کر چکے ہیں۔ عدلیہ پر دباؤ ڈالنے اور آئین کی تشریح کو ذاتی مفاد کے مطابق کرنے کی روش عام ہو گئی ہے۔ جب سیاست ذاتی فائدے اور جماعتی مفادات پر مبنی ہو، تو جمہوریت اپنی روح کھو دیتی ہے۔
اگر پاکستان میں جمہوریت کو زندہ رکھنا ہے تو سیاست دانوں کو اپنے کردار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ پارلیمنٹ کو آئین کا محافظ بنانا ہوگا، نہ کہ طاقت کے تابع ادارہ۔ عدلیہ کی آزادی کا احترام اور اداروں کے درمیان توازن ہی جمہوریت کی بقا کی ضمانت ہے۔ ستائیسویں آئینی ترمیم جیسے اقدامات وقتی سیاسی مفادات تو دے سکتے ہیں، لیکن طویل المیعاد طور پر یہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں گے۔
پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل اب سیاسی بلوغت پر منحصر ہے۔ پارلیمنٹ کو ضمیر کے ساتھ قانون سازی کرنی ہوگی، اور سیاست دانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اداروں کو کمزور کرنا دراصل خود اپنے وجود کو کمزور کرنا ہے۔ اگر ستائیسویں ترمیم اتفاقِ رائے کے بغیر منظور کی گئی تو یہ اصلاح نہیں بلکہ ایک خطرناک سیاسی غلطی ثابت ہو گی، ایک ایسی غلطی جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔













