افغانستان میں چھوڑے گئے اسلحے کا خطرناک پھیلاؤ

[post-views]
[post-views]

ارشد محمود اعوان

پاکستان ایک بار پھر اپنے پڑوسی ملک میں جاری طویل اور پیچیدہ جنگ کے سنگین نتائج کا سامنا کر رہا ہے۔ اسلام آباد اور وانا میں حالیہ حملوں نے ایک اہم سوال دوبارہ زندہ کر دیا ہے: افغان سرزمین سے سرگرم شدت پسندوں کو جدید اسلحہ کون فراہم کر رہا ہے؟ ریاست کا مؤقف ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کی شمولیت واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان میں چھوڑا گیا غیر ملکی عسکری سامان اب مزید خطرناک صورت اختیار کر رہا ہے۔

ویب سائٹ

پاکستان کے مستقل مندوب نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اس مسئلے کو اٹھایا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ پاک–افغان سرحد پر ضبط ہونے والے کئی ہتھیار اُن غیر ملکی ذخائر تک پہنچتے ہیں جو افغانستان سے انخلا کے دوران چھوڑ دیے گئے تھے۔ ان کے مطابق یہ اسلحہ اب غیر ریاستی عناصر، دہشت گرد تنظیموں اور جرائم پیشہ گروہوں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے۔

یوٹیوب

یہ معاملہ معمولی نہیں ہے۔ جب امریکہ نے افغانستان سے فوری انخلا کا فیصلہ کیا تو اربوں ڈالر مالیت کا عسکری سازوسامان پیچھے چھوڑ دیا گیا۔ کچھ آلات تباہ کیے گئے، مگر زیادہ تر نہیں۔ ہتھیار اور حفاظتی سازوسامان یا تو گم ہو گئے، لوٹ لیے گئے یا پھر بلیک مارکیٹ میں فروخت ہو گئے۔ اطلاعات کے مطابق ٹی ٹی پی، بی ایل اے اور ای ٹی آئی ایم جیسے گروہ بھی ممکنہ خریداروں میں شامل تھے۔

ٹوئٹر

افغانستان طویل عرصے سے ہتھیاروں کا گڑھ رہا ہے۔ افغان جہاد کے زمانے میں امریکہ، عرب ممالک اور پاکستان کی جانب سے اسلحہ بے تحاشا آیا۔ وقت کے ساتھ یہ ہتھیار ایک گروہ سے دوسرے گروہ تک منتقل ہوتے رہے۔ 2021 کے بعد امریکہ کا چھوڑا گیا جدید اسلحہ اب تک کا سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔

فیس بک

پاکستان کے لیے یہ صورتحال نہایت تباہ کن ہے۔ جدید ہتھیار شدت پسندوں کی صلاحیت بڑھا دیتے ہیں، حملوں کو زیادہ مہلک اور زیادہ بار بار کر دیتے ہیں، سرحدی علاقوں کو غیر مستحکم کرتے ہیں اور قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بنتے ہیں۔ یہ اسلحہ چھوڑ دینا ایک غیر ذمہ دارانہ فیصلہ تھا، اور اب اسے واپس حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔

ٹک ٹاک

اس تناظر میں نگاہیں ایک بار پھر افغان طالبان پر مرکوز ہیں۔ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان مخالف کوئی گروہ ان کی سرزمین پر سرگرم نہیں۔ وہ ٹی ٹی پی جیسے گروہوں کی موجودگی سے انکار کرتے ہیں۔ مگر شواہد بار بار ان دعووں کی تردید کرتے ہیں۔ جب جدید امریکی ہتھیاروں سے لیس شدت پسند پاکستان میں حملے کرتے ہیں تو ایسے انکار خطرناک ہو جاتے ہیں اور عدم سنجیدگی کا واضح پیغام دیتے ہیں۔

انسٹاگرام

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان امن کا خواہش مند ہے۔ یہ خواہش حقیقی ہے۔ لیکن امن تب ممکن نہیں جب ایک ملک اپنے ہاں موجود ایسے گروہوں کے خلاف کارروائی نہ کرے جو پڑوسی کو نشانہ بناتے ہوں۔ امن تب ممکن نہیں جب مہلک اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھوں میں کھلے عام گردش کرتا رہے۔ اور امن تب بھی قائم نہیں رہ سکتا جب جدید ہتھیار سرحدوں کو اتنی آسانی سے عبور کریں جتنی آسانی سے پناہ گزین آتے ہیں۔

ویب سائٹ

آگے کا راستہ مشکل ہے۔ پاکستان کو یہ معاملہ عالمی فورمز پر مسلسل اٹھانا ہوگا۔ دنیا کو سمجھنا ہوگا کہ چھوڑا گیا اسلحہ صرف علاقائی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی خطرہ ہے۔ افغان طالبان کو اپنی ذمہ داری قبول کرنا ہوگی کہ وہ شدت پسندوں کی اسلحے تک رسائی روکیں اور سرحد پار دہشت گردی کو بند کریں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو تشدد کا یہ سلسلہ شدت اختیار کرے گا اور خطے میں امن کا خواب مزید دور ہو جائے گا۔

یوٹیوب

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos