غزہ کے مستقبل کے معاملے پر پاکستان کی اصولی اور واضح سرخ لکیر

[post-views]
[post-views]

ارشد محمود اعوان

پاکستان نے غزہ کے مستقبل کے بارے میں ایک واضح، اصولی اور سنجیدہ مؤقف اختیار کیا ہے، جو عالمی برادری کی توجہ کا مستحق ہے۔ نائب وزیراعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے یہ بات دہرائی ہے کہ اسلام آباد غزہ کے لیے کسی بھی مجوزہ بین الاقوامی استحکامی فورس میں صرف اسی صورت شریک ہونے پر غور کرے گا جب اس کے مینڈیٹ میں حماس کو غیر مسلح کرنا شامل نہ ہو۔ یہ کوئی محض سفارتی نکتہ یا تکنیکی اعتراض نہیں بلکہ ایک سیاسی اور اخلاقی فیصلہ ہے، جو تاریخی تجربات، زمینی حقائق اور غزہ کی پیچیدہ صورتحال کی حقیقت پسندانہ سمجھ پر مبنی ہے۔

غزہ کوئی ایسا معمول کا بعد از تنازع علاقہ نہیں جہاں بیرونی طاقتیں آ کر نظم و نسق قائم کریں اور حالات بہتر ہوتے ہی واپس چلی جائیں۔ یہ ایک گنجان آباد خطہ ہے جہاں دہائیوں پر محیط قبضے، ناکہ بندی، بار بار کی جنگوں اور فلسطینی داخلی تقسیم نے گہرے سیاسی، نظریاتی اور سماجی شگاف پیدا کر دیے ہیں۔ ان بنیادی عوامل کو نظرانداز کر کے غزہ کو “مستحکم” کرنے کی کوئی بھی کوشش دراصل اسی عدم استحکام کو دوبارہ جنم دے سکتی ہے جسے ختم کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

ویب سائٹ

پاکستان کے مؤقف کی بنیاد ایک نہایت اہم فرق پر ہے، جسے عالمی مباحث میں اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے، یعنی امن برقرار رکھنے اور امن نافذ کرنے کے درمیان فرق۔ امن برقرار رکھنے کے مشن مقامی رضامندی، غیر جانبداری اور محدود طاقت کے استعمال پر قائم ہوتے ہیں۔ ایسے مشن اسی وقت کامیاب ہوتے ہیں جب مقامی فریق انہیں قبول کریں اور انہیں ایک غیر جانبدار قوت سمجھیں۔ اس کے برعکس، امن نافذ کرنے کا تصور جبر پر مبنی ہوتا ہے، جس میں مزاحمت کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غزہ میں اگر کسی بین الاقوامی فورس کو حماس کو غیر مسلح کرنے کا اختیار دیا گیا تو وہ لازماً امن نافذ کرنے کی قوت بن جائے گی۔

حماس غزہ کے سماج کے حاشیے پر موجود کوئی معمولی مسلح گروہ نہیں ہے۔ اس کی نظریاتی یا عسکری حکمتِ عملی سے اختلاف کے باوجود، یہ حقیقت ہے کہ وہ غزہ کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں گہرائی سے پیوست ہے۔ غیر ملکی افواج کے ذریعے اسے زبردستی غیر مسلح کرنے کی کوشش یقینی طور پر مسلح مزاحمت کو جنم دے گی، مشن کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گی اور امن دستوں کو براہِ راست لڑائی میں جھونک دے گی۔ اس طرح استحکام کے بجائے یہ فورس خود تنازع کا فریق بن سکتی ہے۔

یوٹیوب

پاکستان کا مؤقف اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ غیر مسلح کرنا باہر سے مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ اگر غزہ کو پائیدار امن کی طرف بڑھنا ہے تو مسلح گروہوں کا معاملہ فلسطینیوں کی اپنی قیادت کے تحت سیاسی عمل کے ذریعے حل ہونا چاہیے۔ یہ ذمہ داری فلسطینی اتھارٹی یا کسی ایسے مستقبل کے نمائندہ نظام پر عائد ہوتی ہے جو شفاف اور جامع سیاسی عمل کے نتیجے میں سامنے آئے۔ صرف وہی قیادت، جسے اپنے عوام کی نظر میں قانونی حیثیت حاصل ہو، سلامتی کے معاملات پر مؤثر اور قابلِ قبول فیصلے کر سکتی ہے۔

بیرونی قوتیں اس عمل میں معاون کردار ادا کر سکتی ہیں، مگر اس کردار کی حدود واضح ہونی چاہئیں۔ بین الاقوامی فورسز امنِ عامہ برقرار رکھنے، شہریوں کے تحفظ اور انسانی امداد کی فراہمی میں مدد دے سکتی ہیں، لیکن وہ طاقت کے زور پر سیاسی نتائج مسلط نہیں کر سکتیں۔ یہاں تک کہ فلسطینی کاز سے ہمدردی رکھنے والے ممالک کی افواج بھی اگر ایک فریق کو غیر مسلح کرنے پر مامور ہوں تو غیر جانبداری کا تاثر قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

ٹوئٹر

پاکستان کی یہ احتیاط اس کے طویل تجربے سے جنم لیتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں ایک بڑے شراکت دار کے طور پر پاکستان نے افریقہ سے بلقان تک دنیا کے نہایت غیر مستحکم خطوں میں اپنی افواج تعینات کی ہیں۔ ان تجربات نے یہ سبق دیا ہے کہ جہاں سیاسی اتفاقِ رائے اور مقامی ملکیت موجود ہو، وہاں امن مشن مددگار ثابت ہوتے ہیں، اور جہاں یہ عناصر موجود نہ ہوں، وہاں غیر ملکی افواج خود تنازع کا شکار بن جاتی ہیں۔

اسی پس منظر میں پاکستان نے بالعموم امن نافذ کرنے کی کارروائیوں سے گریز کیا ہے، خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں، جہاں غیر ملکی فوجی موجودگی تیزی سے عوامی غصے کا سبب بن سکتی ہے۔ غزہ پر پاکستان کا مؤقف فلسطینی عوام کی تکالیف سے بے اعتنائی نہیں بلکہ اس سوچ کا اظہار ہے کہ ایک غلط حکمتِ عملی حالات کو مزید خراب کر سکتی ہے۔

فیس بک

اتنا ہی اہم وہ پیغام ہے جو پاکستان غزہ کے بعد کے منصوبے بنانے والوں کو دے رہا ہے۔ اس مرحلے پر وضاحت نہایت ضروری ہے۔ مبہم مینڈیٹس اور بدلتے اہداف ماضی میں کئی عالمی مداخلتوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔ امن برقرار رکھنے اور امن نافذ کرنے کے درمیان واضح لکیر کھینچ کر پاکستان عالمی برادری کو خبردار کر رہا ہے کہ مقاصد اور ذرائع دونوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے۔

پاکستان نے بارہا واضح کیا ہے کہ وہ سفارت کاری، انسانی امداد اور موزوں حالات میں ایک واقعی غیر جانبدار بین الاقوامی موجودگی کے ذریعے غزہ میں امن کی حمایت کے لیے تیار ہے۔ تاہم اس نے یہ بھی دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ امن بندوق کے زور پر پیدا نہیں کیا جا سکتا۔ رضامندی کے بغیر مسلط کیا گیا استحکام دیرپا نہیں ہوتا۔

انسٹاگرام

بالآخر، غزہ کا مستقبل کسی بھی صورت میں غیر ملکی افواج کے ہاتھ میں نہیں ہو سکتا۔ یہ مستقبل ایک ایسے سیاسی افق سے جڑا ہے جو فلسطینیوں کو عزت، نمائندگی اور امید فراہم کرے۔ پاکستان کا مؤقف یاد دہانی ہے کہ بعض اوقات تحمل اور احتیاط ہی سب سے ذمہ دارانہ حکمتِ عملی ہوتی ہے، اور ناکام مداخلتوں سے بھرے خطے میں یہی سبق عالمی برادری کے لیے سب سے قیمتی ہے۔

ٹک ٹاک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos