Premium Content

قائد اعظم اور آج کا پاکستان

Print Friendly, PDF & Email

مصنف :     شفقت اللہ مشتاق

ملک میں پائی جانے والی موجودہ معاشی و سیاسی عدم استحکام کی صورتحال پر ہر ذی فہم مایوس اور مغموم نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر غیر یقینی کیفیت نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اوپر سے اخلاقی پستی کے واقعات نے پوری قوم کا مورال پست کردیا ہے اور ہم سب حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ باقی عقل نہیں تے موجاں ای موجاں۔ جب عقل کو سوچنے کی فرصت نہ ہو تو  ایک دوسرے کے چہرے نوچنے کے علاوہ سب آپشن ختم ہوجاتے ہیں اور پھر تکفین تدفین اور رسم ختم اور آہ و بقا۔ کاش ہم اپنی بقا کے لئے سر جوڑ کر بیٹھ جاتے تو آج ہم ایک دوسروں کے جوڑوں میں نہ ہوتے ہمارے دشمن ہماری موجودہ صورتحال پر قہقہے نہ لگا رہے ہوتے۔ بیدار مغز لوگ اپنے ماضی سے سبق سیکھتے ہیں اور اس بیک گراونڈ کے نتیجے میں مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دیتے ہیں اور پھر فکر اور عمل سے اپنے مستقبل کو تابناک بنا دیتے ہیں۔ ہم ہیں کہ ہمیں دسمبر میں سردی کے علاوہ کچھ محسوس ہی نہیں ہوتا ہے۔ شاید ہماری آنکھوں کے سامنے تاحد نگاہ حرص،لالچ،خودغرضی اور خودفریبی کی دھند ہی دھند ہے اور ہمیں کچھ دکھائی ہی نہیں دے رہا ہے یقیناً ان حالات میں زندگی کی موٹر وے بند کرنا پڑتی ہے اس کی وجہ حادثات سے بچنا ہوتا ہے حالانکہ ہم 16 دسمبر 1971 کا اتنے بڑے حادثے کا شکار ہوئے جس کے نتیجے میں ہمارا ملک دولخت ہو گیا تھا لیکن آج تک ہم میں سے کسی نے اپنے لخت جگر کو اس اتنے بڑے واقع کی وجوہات کا شعوری احساس نہیں دلایا کاش اگر ایسا ہم نے کیا ہوتا تو آج کی نوجوان نسل قدم پھونک پھونک کر رکھتی اور اپنے اندر احساس ذمہ داری پیدا کرتی۔ 16 دسمبر کو ہمارے بچے دہشت گردی کا شکار ہوئے ابھی ہم سب نے اپنے شہداء بہن بھائیوں کا بدلہ لینا ہے۔ مذکورہ دونوں واقعات اپنی نوعیت کے انتہائی فکر انگیز واقعات ہیں اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ دماغ کی کھڑکیاں کھولنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ایک دوسرے کی بجائے اپنے آپ پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے آہ و بقا ترک اور ایک نئے سرے سے عملی زندگی کا آغاز۔ غوروفکر کرنا چاہیے سوچ بچار کرنے سے حالات کا دھارا بدلا جاسکتا ہے۔ تجربات سے انسان سیکھتا ہے اور اپنے اندر اخلاقی قوت پیدا کرتا ہے نگاہ بلند، سخن دل نواز اور جاں پرسوز ہو تو پھر جا کر اس قوم میں قائداعظم محمد علی جناح پیدا ہوتے ہیں اور 25 دسمبر کی صبح امید طلوع ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/babaye-qoum-quaid-e-azam-muhammad-ali-jinnah/

ہم اپنے بچوں کو قائد اعظم محمد علی جناح کے بارے میں ایک مضمون یاد کروا دیتے ہیں بلکہ رٹہ لگوا دیتے ہیں بس اور پھر نوٹوں پر قائد کی تصویروں کی بھرمار اور پھر نوٹوں کی بارش۔ ملک معاشی طور پر کنگال ہونے جارہا ہے اور ایک مخصوص طبقہ نوٹوں اور ووٹوں کی دنیا آباد کرتا ہے۔ مجال ہے کوئی نوٹ پر لگی تصویر کو غور سے دیکھتا ہو۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بانی پاکستان ہم سے آج بھی مخاطب ہیں وہ کبھی طالب علموں کو دل لگا کر محنت کا درس دے رہے ہوتے ہیں کبھی اساتذہ کو نوجوان نسل کی درست تعلیم وتربیت کرنے کا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ وہ سیاستدانوں میں بصیرت پیدا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کررہے ہوتے ہیں۔ وہ سول بیورو کریسی کو دعوت فکر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی قوم کی ایک خادم کی حیثیت سے خدمت کرنی ہے کہیں خادم اعلی نہ بن جانا۔ وہ پاکستان کی فوج کو سرحدوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتے ہیں اور پھر عوام کو بھی للکارتے ہیں کہ آپ نے جوش نہیں ہوش کا مظاہرہ کرنا ہے۔ قائد اعظم تو بہت کچھ کہتے ہیں۔ اتحاد، نظم اور یقین۔ کام کام اور بس کام۔ جمہوریت جمہوریت اور جمہوریت۔ اقلیتوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔ مذہبی آزادی اور سیاسی شعور۔ حوصلہ ہمت اور صبر وغیرہ وغیرہ کیا کچھ نہ کہا ہمارے قائد نے۔ بدقسمتی کہ ہم اندھے اور بہرے لوگ ہیں ہمیں نہ کچھ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی کچھ سنائی دیتا ہے۔ ہم کسی کی بات نہیں سنتے صرف اپنی سناتے ہیں۔ شاید ہم صرف اپنی ہی بات بنانا چاہتے ہیں کیونکہ ہمیں دوسروں کی کوئی فکر نہیں ہم اپنے پیٹ کی فکر میں ہیں اور ہمارا پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ شاید اس کو دوزخ کی آگ ہی بھرے گی۔

ہمارے ساتھ بہت بڑا ہاتھ ہوا ہے ہمیں شخصیت پرستی تو سکھا دی گئی لیکن ان شخصیات کی تعلیمات سے دانستہ دور رکھا گیا ہے۔ علامہ اقبال کے اشعار میں نے طوطے کی طرح رٹے تھے لیکن معنی و مفہوم کا مجھے آج تک پوری طرح علم نہیں ہو سکا ہے۔ ہمارے مذہبی و سیاسی مفکرین ہم سے کیا چاہتے ہیں ہمیں کوئی پتہ نہیں ہم سب نے مل کر ان کے بارے میں اوٹ پٹانگ باتیں کرکے ان کو متنازعہ بنا دیا ہے اب تماشہ ہے اور ہم سب تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ مزے ہی مزے۔ ہم اپنی ہی نظروں میں  گر چکے ہیں اور دوسروں کی نظروں میں مشکوک ہو چکے ہیں حالانکہ ہمیں ایک دوسرے کا معشوق ہونا چاہیے۔  بہرحال بدلتے حالات میں ہمیں قائد اعظم کےفرمودات کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/unity-faith-discipline-jinnah-message-on-25th-december/

فروری 1948 میں قائداعظم نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری ہوگااور اسلام کے اہم اصولوں کو اپنے اندر سمو لے گا یہ اصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہے جیسے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے۔ اس نے ہمیں انسانی برابری انصاف اور ہر ایک کے ساتھ برابری کا درس دیا ہے۔

پندرہ نومبر 1942 میں انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہوگا۔ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کردیا تھا۔ الحمدللہ قرآن مجید ہماری راہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا

پچیس مارچ 1948 میں چٹاگانگ میں افسروں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ کو اپنا فرض منصبی خادموں کی طرح انجام دینا ہے۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیں سیاست کرنا آپ کا کام نہیں یہ سیاست دانوں کا کام ہے۔ آپ سرکاری ملازم ہیں جس جماعت کو اکثریت حاصل ہوگی وہ حکومت بنائے گی اور آپ کا فرض ہے کہ آپ وقتی طور پر اس حکومت کی خدمت ملازمین کی طرح کریں وقتی طور پر اقتدار میں آنے والی حکومت بھی اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرے اور سمجھے کہ آپ کو کسی پارٹی کی خاطر استعمال نہ کیا جائے۔

میں درست فیصلے کرنے پر یقین نہیں رکھتا۔ میں فیصلہ کرتا ہوں اور اس فیصلہ کو درست بنا دیتا ہوں

فیصلہ کرنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچو لیکن جب فیصلہ کرلو تو پھر ثابت قدم رہو

دنیا میں دو قوتیں ہیں ایک تلوار اور دوسرا قلم۔ ان دونوں میں بڑی رقابت اور مقابلہ ہے۔ ایک تیسری قوت ہے جو ان دونوں سے طاقتور ہے اور وہ ہے عورت۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/unity-faith-and-discipline/

ہم سب مردوزن پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم اپنے ملک کے بانی کے خیالات، افکار اور فرمودات ک بنظر غائر مطالعہ کریں اور پھر اس ملک کی تعمیر وترقی انہیں خطوط پر کی جائیں جن کا ہمیں درس دیا گیا ہے

پاکستان زندہ باد

قائداعظم پائندہ باد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos