Premium Content

پولیس نظام میں تبدیلی

Print Friendly, PDF & Email

مصنف:        طاہر مقصود

کالم نگار پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔

محترم عامر ذوالفقار خان نے بطور انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب تعیناتی کے فوری بعد ایک خط سی سی پی او، لاہور اور پنجاب کے تمام ریجنل پولیس افسران کو لکھا ہے جس میں مختلف افسران کے ذمہ مختلف کام لگا کر پولیس کی ورکنگ اور امیج بہتر کرنے کے لیے جامع تجاویز مانگی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انکے دل میں یہ جزبہ موجزن ہے کہ وہ پنجاب پولیس جسے انگریز نے کمانڈ اینڈ کنٹرول کی بنیاد پر بطور فورس ڈیزائن کیا تھا کو سروس میں تبدیل کر سکیں۔ پولیس کی ورکنگ کے حوالے سے اُنہوں نے منشیات اور منظم جرائم کی تفتیش کے لیے علیحدہ یونٹ بنانے کے لیے رائے مانگی ہے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/punjab-police-aur-asri-taqazy/

پولیس آرڈر 2002ء آرٹیکل 8 میں گنجائش موجود ہے کہ پولیس کے ادارہ کی تنظیم نو مختلف برانچوں اور شعبوں کی بنیاد پر کی جاسکے۔ ماضی میں بھی منشیات کے مقدمات کی تفتیش کے لیے ، نارکوٹیکس تفتیشی یونٹ اور قتل کے مقدمات کی تفتیش کے لیے ہومی سائیڈ وتفتیشی یونٹ بنائے گئے تھے۔ تفتیشی افسران کو پولیس کالج چوہنگ میں باقاعدہ تربیت دے کر ان پوسٹوں میں تعینات کیا گیا تھا۔ یہ افسران بہتر طور پر شہادتیں اکٹھی کر سکتے تھے اور پنجاب فرانزک سائنس لیبارٹری سے زیادہ اچھے طریقے سے مدد حاصل کرتے تھے۔ ان تفتیشی افسران کو تفتیش مقدمہ پر آنے والے اخراجات بھی باقاعدہ سرکاری طور پر ادا کیے جاتے تھے۔ چند ماہ کے بعد یہ تفتیشی افسران اپنے کام میں ماہر ہو گئے اور تفتیش کا معیار بھی بہتر ہو گیا مگر بعد ازاں نامعلوم وجوہات کی بناء پر یہ یونٹ ختم کر دیے گئے۔

موجودہ دور مہارتوں کا دور ہے اور یقیناً انسپکٹر جنرل پولیس کے اس طرح کے اقدامات سے پولیس کی ورکنگ بہتر ہو گی۔ لیکن کیا پولیس افسران خاص طور پر جونیئر رینکس جو پولیس کے کل کا 99 فیصد سے زائد ہیں کی صلاحیت میں کمی ہے یا پولیس کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کی ضرورت ہے یہ سوال اہم ہے۔

قیام پاکستان کے بعد پولیس میں محکمہ جاتی اصلاحات کے لیے متعدد کمیشن / کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ جنرل  ابوبکر عثمان مٹھا ، جسٹس کانسٹن ٹائین اورشہزاد حسن پرویز جیسے نامی گرامی لوگ ان کمیٹیوں کے سربراہ رہے۔ تمام لوگوں نے محنت سے کام کیا مگر پولیس کا امیج بدلا نہ کام میں بہتری آئی اور نہ عوام الناس کا اعتماد مل سکا لوگ بدستور پولیس سے نالاں ہیں بلکہ پولیس میں موجود سینئر رینک کے افسران خود بھی پولیس نظام سے مطمئن نہ ہیں۔

پولیس اسٹیشن یا تھانہ کی حیثیت نظام پولیس میں محور کی سی ہے اور پولیس اسٹیشن 1898 کے ضابطہ فوجداری اور 1934 کے پولیس رولز میں طے شدہ اصولوں پر کام کرتا ہے۔  تھانہ کا انچارج یا ایس ایچ او جو ایک انسپکٹر یا سب انسپکٹر رینک کا افسر ہوتا ہے قانون کے مطابق اپنے علاقہ اختیار میں انسداد جرائم، تفتیش مقدمات ، گرفتاری مجرمان اور امن و امان کے قیام کا ذمہ دار ہوتا ہے  اور تمام لوگوں کو سب سے زیادہ شکایات بھی اسی افسر سے ہوتی ہیں۔ پولیس کے سینئر افسران بھی ایس ایچ او کو ہی بدعنوانی اور کرپشن کیوجہ سے پولیس کی بدنامی کا باعث سمجھتے ہیں۔ بقول حسن نثار صاحب ایس ایچ او کے کرپٹ ہونے کا یہی ثبوت کافی ہے کہ جو تنخواہ وہ گھر لے کر جاتا ہے  وہ اس میں زندہ ہے یعنی معاشرہ کے اندر یہ احساس موجود ہے کہ جتنے اختیارات ایس ایچ او کے پاس ہیں اس لحاظ سے اسکی تنخواہ کم ہے۔

میرانقطہ نظر یہ ہے کہ ایس ایچ او کی راہنمائی اور نگرانی کے لیے ایس ڈی پی او، ضلعی ایس پی ، ریجنل ڈی آئی جی اور انسپکٹر جنرل پولیس  کے دفاتر موجود ہیں ان پانچ افسران کی موجودگی میں بھی اگر ایس ایچ او  درست کام نہیں کرتا یا وہ کرپٹ ہے تو پھر ان افسران کو بھی خود اپنی کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے ۔ آج سے تقریباً تیس سال قبل پولیس حکام نے فیصلہ کیا کہ سب انسپکٹر کی بجائے انسپکٹر رینک کے آفیسر کو تھانہ کا انچارج لگایا جائے اور پولیس آرڈر 2002 نے اس خیال کو قانونی تحفظ بھی فراہم کر دیا مگر ضلعی ایس پی(ڈی پی او) نے پراپگنڈہ شروع کر دیا کہ انسپکٹر بطور ایس ایچ اور درست کام نہ کرتا ہے ۔ سب انسپکٹر زیادہ محنت سے کام کرتا ہے حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ ایس پی انسپکٹر کو محکمہ سزا نہیں دے سکتا تھا کیونکہ انسپکٹرکی اتھارٹی ڈی آئی جی کے پاس ہے اور ہمارے افسران جو عام طور پر پی ایس پی ہوتے ہیں نے کمانڈ صرف ایک طریقہ سے سیکھا ہے کہ معمولی غلطی پر بھی ماتخت کو سزا دیکر خود بری الزام ہوجاؤ ۔ حالانکہ کمانڈ کا ایک احسن طریقہ بھی ہے کہ ماتحت کو گائیڈ کیا جائے اور اسکی مدد کیجائے۔ 2013 میں پولیس آرڈر میں ترمیم کروا کر انسپکٹر کے ساتھ سب انسپکٹر کو بھی ایس ایچ او تعینات کرنے کا اختیار حاصل کر لیا گیا۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/thana-culture-ya-police-culture/

آجکل یہ پروپگنڈہ بھی پورے زورں پر ہے کہ ڈی ایس پی کام نہیں کرتا ۔ حالانکہ انسپکٹر سے ڈی ایس پی ترقی کا اختیار انسپکٹر جنرل پولیس کے پاس ہے سوچنا پڑے گا کہ ایسے افسران کو ترقی ہی کیوں دی  گئی تھی ۔ آپ یہ تو کہہ نہیں سکتے کہ اے ایس پی صاحبان ڈی ایس پی سے بہتر کام کرتے ہیں کیونکہ اے ایس پی اور ڈی ایس پی کی تعلیم میں تو کوئی فرق رہا نہیں البتہ ڈی ایس پی اپنے تجربہ کی بنیاد پر تفتیش مقدمات سے لیکر پبلک ہینڈلنگ تک بہتر ہوتا ہے۔

انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے اپنے خط میں جن نقاط پر بہتری کے لیے تجاویز مانگی ہیں  وہ پولیس کے روزمرہ کرنے کے کام ہیں جن میں بہتری اور نکھار پیدا کرنے کے لیے کی گئی کسی بھی کوشش کو قدر کی نظر سے دیکھنا چاہیے مگر پولیس کا کام ہے کہ وہ آئینی طور پر دیے گئے اختیار کے اندر رہتے ہوئے ملکی قوانین پر عمل کرائے۔ اس وقت پولیس کی تنظیم اور کام کرنے کے طریقہ کار والے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت ہے مثلاً قانون کی منشاء ہے کہ ہر جرم قابل دست اندازی پولیس کی اطلاع پر فوری ایف آئی آر درج کی جائے اور یہیں سے خرابی شروع ہو جاتی ہے اس پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن میں صرف یہ کہوں گا کہ پولیس حکام حکومت کو سفارش کریں کہ جس طرح ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے محکموں میں باقاعدہ کیس درج کرنے سے پہلے ابتدائی انکوائری کیجاتی ہے پولیس بھی ایسی انکوائری کر سکے۔

دنیا اس وقت خصوصیات کی قائل ہے تو پولیس میں بھی جنرل کیڈر بھرتی کی بجائے خصوصی کیڈر بنائے جائیں اور نئے بھرتی ہونے والے افسر کو کیڈر کی ضرورت کے مطابق تربیت دی جائے۔ پنجاب پولیس میں بھی مثال موجود ہے کہ ایس پی یو، پی ایچ پی اور سی ٹی ڈی کو جب خاص کیڈر کے طور پر ڈیل کیا گیا تو انکی کارکردگی بہت بہتر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے بھی ریمارکس میں کہا تھا کہ تفتیشی ونگ تو علیحدہ ہونا چاہیے۔ اب چیف جسٹس صاحب کو کون بتائے کہ پنجاب پولیس کے حکام کی سفارش پر 2013 میں پنجاب حکومت نے پولیس آرڈر 2002 کے آرٹیکل 18 میں ترمیم کرکے شعبہ تفتیش کو ڈی پی او کے ماتحت کیا تھا۔ پراسکیوشن ڈیپارٹمنٹ کا سیکرٹری پولیس آفیسر ہو تو شعبہ تفتیش کے ساتھ بہتر کوآرڈینشن قائم ہو سکتا ہے۔ ایس ایچ او کو روزمرہ اخراجات کے لیے فنڈز فراہم کر کے ڈی ڈی او کے اختیار دیے جائیں۔

پولیس آرڈر 2002 کا تقاضہ ہے کہ گریڈ 19 ایس ایس پی رینک کا آفیسر ڈی پی او لگایا جائے۔ جبکہ اس وقت اکثریت گریڈ 18 کے افسر ڈی پی او تعینات ہیں اور گریڈ 19 کی پوسٹیں خالی پڑی ہیں ۔ ضروری ہے کہ  صوبہ کے اندر ہی گریڈ 18 سے آگے افسران پولیس کو ترقی دی جائے۔ پولیس آرڈر 2002 کا آرٹیکل 112 انسپکٹر جنرل پولیس کو وسیع اختیار دیتا ہے کہ وہ متعلقہ حکومت کی منظوری سے پولیس کی بہتری کے لیے قوائد بنائے۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/punjab-police-ma-taraqi-ka-nizam/

یہ وقت انتہائی مناسب ہے کہ آئی جی آفس میں ایک کمیٹی بنائی جائے جس میں ہر رینک کے افسر شامل ہوں۔ یہ کمیٹی پولیس کے نظام میں بہتری کے لیے سفارشات مرتب کرے جس میں متعلقہ فوجداری قوانین میں تبدیلی کی بھی تجاویز دی جائے۔ مگر اس کام کے لیے ہر قسم کے تعصب سے پاک ہونا ضروری ہے جو اس وقت پی ایس پی افسران اور صوبائی پولیس افسران میں بام عروج پر ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos