Premium Content

پنجاب میں خواتین کی بطور افسر مہتم تھانہ تعیناتی

Print Friendly, PDF & Email

مصنف: طاہر مقصود

مصنف پنجاب پولیس سے ریٹائرڈ ایس ایس پی ہیں۔

اے انسانو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اُسی سے جوڑا بنایا اور اُن دونوں سے اُس نے بہت سے مرد اور عورتیں پیدا کیں۔خدا کو یاد رکھو جس کے ذریعے آپ اپنے باہمی (حقوق) کا مطالبہ کر تے ہیں اور اُن رحموں کا احترام کریں جنہوں نے آپ کو جنم دیا ہے۔ (القرآن)

اسلام کے ظہور سے قبل قدیم عرب میں رواج تھا کہ بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا ۔اسلام نے اس لعنت کو ختم کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا:۔

 “ اور جب لڑکی کو زندہ دفن کیا گیا تو پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ کے لیئے ماری گئی ”

اسلام کے ابتدائی دور میں صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہ قرآن پاک کو زبانی یاد کر لیا کرتے تھے۔ جنگ  یمامہ  میں بہت سےحفاظ اکرام شہید ہو گئے تو حضرت عمررضی اللہ تعالی عنہ کے مشورہ پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے پورے قرآن کا ایک معیاری نسخہ جاری کیا ۔ حضرت ابو بکررضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے  بعد یہ نسخہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی حفاظت میں رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد قرآن پاک کا یہ نسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کو دے دیا گیا ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ  کے دور میں آرمی نیا اور آذربائیجان جیسی جگہوں پر زبان کی تبدیلی کیوجہ سے نو مسلم آبادی میں قرآن کی مختلف تاویلیں اُبھر رہی تھیں تو  حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حفاظت میں موجودقر آن پاک کا نسخہ ادھار لیا اور اُس سے قرآن پاک کے چھ معیاری نسخے بنوا کر مختلف علاقوں  میں روانہ کیے۔

 حضرت حفصہ رضی اللہ تعالی عنہا کی امانت اور قابلیت کے بارے میں کسی نے کوئی سوال نہیں کیا کہ وہ اس نسخہ کو گم کر دینگی، نظر انداز کر دینگی یاتبدیل کر دینگی۔ یہ تو ایک مثال ہے ورنہ خواتین کی عظمت اور دانشمندی سے نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ  تاریخ عالم بھری پڑی ہے۔

 “امام حاکم نیسا پوری کا فرمان ہے کہ ہمارے دین کا چوتھائی حصہ عورتوں کی روایاتوں  پر منحصر ہے ”

تحریک پاکستان کی بات کریں تو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح او ربیگم رعنا لیاقت علی خان کے نام  ہر  خاص و عام کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو کون بھول سکتا ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری اسلامی دنیا میں پہلی خاتون  حکمران بنی تھیں۔  اُنہوں  نے اپنے دور حکومت میں خواتین کے لیے الگ پولیس اسٹیشن قائم کرنے کا حکم دیا تھا ۔ عاصمہ جہانگیر سپریم کورٹ آف پاکستان بار کی صدر رہی تھیں اسکے علادہ انہیں انسانی حقوق کے علمبردار کے طورپر جانا جاتا ہے ۔ بانو قد سیہ، ارفع کریم رندھاوا ، بلقیس ایدھی کے نام ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ محترمہ نگار جو ہر نے فوج کے اعلیٰ ترین عہدہ تک ترقی کی منزلیں طے کیں ۔ محترمہ جسٹس  عائشہ ملک اس وقت بھی سپریم  کورٹ آف پاکستان میں جج کے فرائض انجام دے رہی  ہیں۔  خواتین ریلوے ٹرین چلانے سے لیکر جنگی جہاز اُڑانے تک ہرکام  بطریق احسن نبھا رہی ہیں۔ یہ کہنا کہ خواتین صلاحیتوں کے لحاظ سے کسی بھی طرح مردوں سے کم ہیں قطعی درست نہ ہوگا ۔ اس وقت دنیا کی آبادی کانصف  سے زائد خواتین ہیں۔ ملکی ترقی اور انتظامی معاملات میں توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خواتین اور مرد  اپنا اپنا کردار ادا کریں۔پنجاب پولیس میں خواتین کے لیے 10 فیصد کا کوٹہ مقرر ہے مگر تا حال تقریباً 3 فیصد خواتین ہی پولیس میں بھرتی ہو سکیں ہیں۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/police-nizam-ma-tabdeli/

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل محترم عامر ذوالفقار خان نے اپنی تعیناتی  کے بعد پنجاب پولیس کی کارکردگی میں نکھار پیدا کرنے کےلیے  اور عوامی پذیرائی حاصل کرنے کے لیے بہت سے عملی اقدامات کیے ہیں۔ انکے ایک حکم کے تابع پنجاب کے تقریباً تما م اضلاع میں ایک خاتون پولیس آفیسر کو افسر مہتمم تھانہ کے طور پر تعینات کر دیا گیا ہے۔  یقیناً یہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے اور اس کے دور رس نتائج سامنے آئیں گے۔  پنجاب پولیس کی خواتین افسران انتہائی باصلا حیت ہیں  اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ خاص طور پر  براہ را ست سب انسپکٹر بھرتی ہونے والی  افسران میں سے اکثر ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان افسروں کو ضلعی  پولیس افسران سپورٹ کریں کیونکہ جس معاشرہ میں ہم رہتے ہیں اس معاشرہ میں مرد کی اجارہ داری ہے،  اور تمام تر روشن خیالی کے باوجود مرد عورت کے ماتحت کام کرنا نہیں چاہتا۔ حالانکہ پولیس میں سینئر رینکس میں خواتین افسران اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہیں۔اگرچہ چند اضلاع میں وومن پولیس اسٹیشن قائم ہیں۔مگر عملی طور پر یہ ممکن نہ ہے کہ تمام ضلع کی  سائل خواتین ایک ہی تھانہ میں جائیں۔

میری تجویزہوگی کہ ہرتھانہ میں کم از کم دو خواتین افسران کو بطور نائب محرر تعینات کر کے دن کے اوقات میں اُن سے ڈیوٹی لی جائے۔  اس سے نہ صرف خواتین افسران ہر سطح پر میسر ہونگی بلکہ مرد افسران دیگر ڈیوٹیوں کے لیئےفارغ  ہونگے۔  ٹیلی فون آپریٹر کے طور پر خواتین افسر سود مند ثابت ہو سکتی ہیں۔پہلے سے موجود ہیلپ ڈیسک پرخواتین پولیس افسران کو تعینات کیا جا سکتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل ملتان میں خواتین پر تشدد کے خلاف مرکز (وی اے ڈبلیو سی)قائم کیا گیا تھا جو اس وقت بھی بہترین انداز میں کام کر رہا ہے۔ جہاں پر ایک ہی  چھت کے نیچے پولیس اسٹیشن، ڈاکٹر ،سوشل ویلفیئر آفیسر  وغیرہ موجود ہیں۔ اگر انسپکٹرجنرل پولیس اپنی تعیناتی  کے دوران اس  طرح کے مراکز پنجاب کے دیگر اضلاع یا کم از کم ریجنل سطح پر قائم کروانے میں  کامیاب ہو جاتے ہیں  تو یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہوگی۔

مزید پڑھیں: https://republicpolicy.com/subai-police-service-service-ka-qayyam-he-darasal/

پولیس اسٹیشن میں خاتون آفیسر کی بطور افسر مہتمم تھانہ تعیناتی  کے بعد دیگر اسٹاف میں بھی خواتین کا اضافہ ہو گا تو ایسے میں انتہائی اہم ہے کہ”پروٹیکشن اگین سٹ حراسمنٹ آف وومن ایٹ ورک پلیس ایکٹ” پر سختی کے ساتھ عمل کیا جائے، اور ایکٹ کے تحت مطلوبہ ضروری کمیٹیوں کی تشکیل کر دی جائے ۔ بصورت دیگر خواتین افسران کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔

انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب 2015 کے واقع کو بھولے نہیں ہونگے جو اخبارات کی زینت بنا تھا اور ایک دفعہ پھر سوشل میڈیا پر بدقسمتی سے اس واقعہ کو ہوا دی جا رہی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos