اس ہفتے مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں اختلافات اور ڈرامے میں اس وقت اضافہ ہوا جب شاہد خاقان عباسی نے انکشاف کیا کہ وہ اب پارٹی کے عہدے پر کام جاری نہ رکھ سکیں گے۔ جبکہ شاہد خاقان عباسی عوامی طور پر یہ کہتے ہیں کہ وہ مریم نواز کو پارٹی کے نئے چیف آرگنائزر کے طور پر جگہ دینے کے لیے الگ ہو رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ کچھ نظر آتا ہے۔ یہ دراڑیں تاحال ابھی تک کہیں سے ظاہر نہیں ہوئیں۔
شاہد خاقان عباسی پارٹی کے ایک ایسے رہنما ہیں جنہوں نے برسوں تک سابق وزیر اعظم نواز شریف کا ساتھ دیا۔ جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی، تو شاہد خاقان عباسی نے پارٹی کے سینئر نائب صدر کے طور پر کئی فورمز پر پارٹی کا دفاع کیا۔ اس کے نتیجے میں اُن کو حکومت کی طرف سے سخت مشکلات کا سامنا بھی رہا۔ انہوں نے خود مقدمات کا سامنا کیا اور جیل کی مصیبتیں بھی برداشت کیں۔ ان کے کردار اور سینئر ترین قیادت کے ساتھ قریبی وابستگی کے پیش نظر، یہ بات پریشان کن تھی کہ جب پی ڈی ایم اقتدار میں آئی اور شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو عباسی صاحب نے کابینہ کا کوئی عہدہ یا قلمدان نہیں لیا۔ یہ بھی واضح ہو گیا کہ شاہد خاقان عباسی، جو سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے حامی تھے ، اپنے ساتھی کو کمزور کرنے اور غیر رسمی طور پر ان کی جگہ اسحاق ڈار کو دینے پر ناراض تھے۔ اب، پارٹی کے دیگر ارکان سے مشورہ کیے بغیرمریم نواز کی بطورپارٹی چیف آرگنائزر تعیناتی نے ان ملے جلے جذبات کو شکوک و شبہات میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ شریف خاندان کا خاندان کے افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کرنے کا رجحان پارٹی میں کچھ لوگوں کے لیے پریشان کن ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پنجاب کی سیاست بدل چکی ہے اور پی ٹی آئی نے اپنے خاندانی مخالف، کرپشن مخالف بیانیے سے شہری متوسط طبقے کے تصور کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے، کچھ لوگوں کے لیے جاری اقرباءپروری کا جواز پیش کرنا مشکل ہے۔ بہاولپور میں اپنے خطاب کے دوران مریم نواز نے ایسی سیاست کو جواز فراہم کرنے کی ضرورت محسوس کی۔بہت سے لوگوں کا قیاس ہے کہ عباسی صاحب کا عہدے سے استعفا دینے کا مطلب ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کو مکمل طور پر چھوڑ دیں گے،حالانکہ انہوں نے ایسی افواہوں کی تردید کی ہے۔ پھر بھی اُن کے استعفے نے لوگوں کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن)کو قیادت اور پارٹی کے مستقبل کے سنگین سوالات کا سامنا کرنا ہوگا جو اسے طویل عرصے سے پریشان کررہے ہیں۔