بہادر شاہ ظفر کی غیر معمولی شہرت کی وجہ 1857 کا انقلاب ہے، تاہم ان کی ہمہ گیر شخصیت میں اس بات کا بڑا دخل ہے کہ وہ اودھ کے ایک اہم شاعر تھے۔ بہادر شاہ ظفر جس طرح بادشاہ کی حیثیت سے انگریزوں کی چالوں کا شکار ہوئے اسی طرح ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ان کے سر سے سخن وری کا تاج لینے کی کوشش کی گئی اور کہا گیا کہ ظفر کی شاعری میں جو خوبیاں ہیں وہ ان کے استاد ذوقؔ کی دیں ہیں۔ سرسید کے سامنے جب اس خیال کا اظہار کیا گیا تووہ بھڑک اٹھے تھے اور کہا تھا کہ، ’’ذوق ان کو لکھ کر کیا دیتے اس نے تو خود زبان قلعہ معلیٰ سے سیکھی تھی۔‘‘ اس میں شک نہیں کہ ظفر ان شاعروں میں ہیں جنہوں نے شعری اظہار میں اردو پن کو فروغ دیا اور یہی اردو پن ظفر کے ساتھ ذو قؔ اور داغؔ کے وسیلے سے بیسویں صدی کے عام شاعروں تک پہنچا۔
محبت چاہیے باہم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
خوشی ہو اس میں یا ہو غم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
غنیمت تم اسے سمجھو کہ اس خم خانہ میں یارو
نصیب اک دم دل خرم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
دلاؤ حضرت دل تم نہ یاد خط سبز اس کا
کہیں ایسا نہ ہو یہ سم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہمیشہ چاہتا ہے دل کہ مل کر کیجے مے نوشی
میسر جام مے جم جم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
رہے حرص و ہوا دائم عزیزو ساتھ جب اپنے
نہ کیونکر فکر بیش و کم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
ظفرؔ سے کہتا ہے مجنوں کہیں درد دل محزوں
جو غم سے فرصت اب اک دم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو