مصنف طاہر مقصود صوبائی پولیس سروس سے ریٹائرڈ ایس پی ہیں۔
پنجاب حکومت نے وفاقی قوانین کے تحت آئی جی پولیس کی خالصتاً صوبائی پوسٹ پر وفاقی پولیس افسران میں سے نئے آئی جی کی تعیناتی کے لیے وفاق کو تین نام بھجوا دیے ہیں ۔
پنجاب حکومت نے وفاقی حکومت کو فیاض احمد دیو، عامر ذوالفقار اور غلام محمود کے نام بھجوائے ہیں تاکہ ان میں سے کسی بھی وفاقی پولیس افسر کی صوبائی پوسٹ پر بطور انسپکٹر جنرل تعیناتی ہو سکے۔ اس سے پہلے پنجاب حکومت فیصل شاہکار کی خدمات وفاق کو واپس کرنے کا خط بھی لکھ چکی ہے۔ پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلی پنجاب محمد خان بھٹی نے وفاق کو مراسلہ لکھا ہے کہ نئے آئی جی کی تعیناتی عمل میں لائی جائے ۔
تا ہم بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا وفاقی پولیس افسر کو آئینی طور پر صوبے کے معاملات سے منسلک پوسٹ پر تعینات کیا جا سکتا ہے؟ آئین اور قانون کے مطابق آئی جی کی پوسٹ ایک صوبائی پوسٹ ہے اور جس کی تنخواہ صوبائی بجٹ سے ادا ہوتی ہے ۔ مزید براں، آئی جی کی پوسٹ پر قانونی اور انتظامی اتھارٹی بھی صوبائی اسمبلی اور صوبائی حکومت کی ہے۔ وفاقی پولیس آفیسر کی بطور آئی جی تعیناتی سنجیدہ قانونی اور آئینی سوالات جنم لیتی ہے۔
پی ایس پی افسران کو صوبوں میں پی ایس پی رولز 1985 کے تحت تعنیات کیا جاتا ہے ۔ یہ رولز آرٹیکل 240 (ب) اور متعلقہ آرٹیکز 97، 129 اور 137 کے ساتھ مماثلت نہیں رکھتے ہیں ۔ صوبائی پوسٹس پر قانونی حق حاکمیت صوبائی حکومت کا ہی ہوتا ہے مگر جب صوبائی پوسٹوں پر وفاقی افسران تعینات ہوتے ہیں تو سنجیدہ آئینی سوالات جنم لیتے ہیں۔ صوبائی عہدوں پر وفاقی سرکاری ملازمین ایک آئینی تضاد پیدا کرتے ہیں۔ کیونکہ وفاقی افسران صوبائی قانون یا حکومت کے تحت نہیں ہوتے ہیں ، لہذا، وفاقی حکومت وفاقی افسران پر اپنا اختیار استعمال کرتی ہے اور صوبائی حکومت کو گورننس اور سروس ڈیلیوری میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
وفاقی سرکاری ملازمین کو صوبے کے معاملات سے منسلک عہدوں پر رکھنا صوبائی حکومت کو غیر متعلقہ بنا دیتا ہے۔ آئینی طور پر یہ کیسے ممکن ہے کہ وفاقی افسران کسی صوبے کے معاملات سے منسلک اسامیوں پر تعنیات ہوں؟
دراصل وفاقی پولیس افسران وفاقی حکومت کے تابع ہوتے ہیں اور صوبوں میں آئین اور قانون کے برعکس وفاقی انتظامی حکم ناموں کی بنا پر تعنیات رہتے ہیں ۔ یہ کلونیل اور وفاقی ایگزیکٹو آرڈرز موجودہ آئین اور قانون سے متصادم ہیں چاہے پولیس سروس آف پاکستان رولز 1985 ہوں یا کہ سی ایس پی رولز 1954 ہوں۔
پولیس صوبائی اختیار ہے اور صوبے میں صرف صوبائی پولیس سروس کو ہی قائم کر کے موجودہ گورننس کے بحران پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔
جبکہ موجودہ پولیس اور انتظامیہ کی ساخت کلونیل پریکٹس ” صوبائی پوسٹس کی وفاقی سروس کے لیے مختص ہونا ” پر قائم ہے تو پھرصوبائی حکومت ان وفاقی افسران کے سامنے بے بس ہی ہو گی
اسکا صرف ایک حل ہے کہ صوبے آئین اور قانون کے مطابق صوبائی پولیس تشکیل دیں اور صوبائی پوسٹس پر صوبائی پولیس سروس کی تعنیاتی کریں۔
لاء اینڈ آرڈر صوبائی آئینی اختیار ہے اور اس اختیار پر عملداری کے لیے صوبائی ادارے موجود ہیں۔ انسپکٹر جنرل پولیس سے لیکر کانسٹیبل تک تمام پوسٹس آئین کے آرٹیکل 240 (ب) کے تحت ہوم ڈیپارٹمنٹ کی ہیں۔ پولیس کی ان تمام پوسٹس پر صوبائی آئینی اختیارات ہیں اور صرف صوبائی پولیس سروس ہی آئینی طور پر ہوم ڈیپارٹمنٹ کی ان پولیس پوسٹس پر قائم ہو سکتی ہے مگر بغیر کسی قانون اور آئین کے وفاقی پاکستان پولیس سروس ان صوبائی پوسٹس پر براجمان ہے ۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومت بھی سنجیدہ نہیں ہے بلکہ وفاقی حکومت کے قوانین پر ہی عملداری پر بضد ہے۔ اب جبکہ صوبائی حکومت ہی اپنے آئینی اختیارات کو غیر آئینی وفاقی ایگزیکٹو اتھارٹی کے سامنے گروی رکھ رہی ہے تو پھر وہ ان تمام انتظامی مسائل سے کیسے نبرد آزما ہو گی؟ وفاقی حکومت شخصی بنیاد پر وفاقی پولیس افسر پر اتھارٹی نہیں رکھتی بلکہ وفاقی پولیس افسرکی وجہ سے وفاقی افسران پر اتھارٹی رکھتی ہے۔
تاہم صوبائی خودمختاری ، آئین کی بالادستی اور گورننس کے لیے پنجاب کی صوبائی حکومت کو مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دینا ہو گا۔
آئین کے شیڈول فور کے مطابق صوبائی اختیارات بشمول لاء اینڈ آرڈر پر وفاقی سروسزز پی اے ایس اور پی ایس پی کیوں قائم ہیں ؟
کیا وفاقی افسران صوبائی قانون کے تابع ہیں ؟
کیا صوبہ وفاقی افسران کی نااہلی اور کرپشن پر کارروائی کر سکتا ہے ؟
جب چیف سیکرٹری اور آئی جی صوبائی پوسٹس ہیں تو وفاقی حکومت یہ تعیناتیاں کیوں کرتی ہے ؟
کیا صوبائی وزیر اعلیٰ چیف سیکرٹری و آئی جی کو صوبائی قانون کے تابع لا سکتا ہے ؟
اگر چیف سیکرٹری اور آئی جی صوبائی وزیرِ اعلیٰ اورصوبائی حکومت کی حکم عدولی کریں تو وزیر اعلی کیا کر سکتا ہے ؟
جب چیف سیکرٹری ، آئی جی اور تمام وفاقی افسران صوبائی قانون کے تابع ہی نہیں تو صوبائی گورننس کیسے بہتر ہو سکتی ہے ؟
جب آئین کے مطابق چیف سیکرٹری کی تعیناتی صوبائی وزیرِ اعلیٰ کا استحقاق ہے تو وہ پھر تعیناتی کیوں نہیں کرتے ہیں ؟
وفاقی افسران وزیر اعظم کو جواب دہ ہیں یا وزیر اعلیٰ کو اور یہ صوبے میں کس قانون کے تحت تعینات ہوتے ہیں ؟
صوبے کی عوام صوبے کی حکومت کو صوبائی اختیارات پر عملداری کے لیے منتخب کرتی ہے مگر جب سارے اختیارات وفاقی افسران کے پاس ہوں تو یہ جمہوریت، حق حاکمیت پر ڈاکہ نہیں ہے ؟