تحریر: محمد طاہر مقصود
پاکستان میں سیاست دانوں کو سب سے ذیادہ دھوکہ بیوروکریسی نے دیا ہے۔ چاہے حکمران جنرلز رہے ہوں یا سیاست دان ، بیوروکریسی نے تمام کو یکساں دھوکہ دیا ہے۔ اس دھوکہ دہی میں سب سے بنیادی دھوکہ حکمرانوں کو آئین اور قانون کے راستوں سے دور کر کے انتظامی نظریہ ضرورت کے تحت نظام حکومت کو چلانا ہے۔ پاکستان میں رائج سیکرٹریٹ طرز بیوروکریسی کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی سیکریٹیریٹ ہی طاقت کا منبع ہیں اور وزراء کی بجائے سیکریٹریز ہی وزارتوں اور ڈیپارٹمنٹس کے انتظامی سربراہ ہیں۔ اس لئے کسی بھی فائل کا منظور ہونا تو درکنار ، اسکا شروع ہونا اور کابینہ کے سامنے پیش ہونا بھی سیکرٹری کی مرضی کے بغیر مشکل ہے۔ مزید، یہ سیکرٹری ہی ہوتا ہے جو مالی، انتظامی اور قانونی اختیارات پر قابض ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ اختیارات سیاست دانوں نے ہی بیوروکریسی کو دیے ہوئے ہیں۔
بیوروکریسی 1947 سے تمام حکمرانوں، نظام اور عوام کو مسلسل دھوکہ دیے ہوئے ہے۔ اس فہرست میں تمام سیاستدان بشمول عمران خان صاحب بھی شامل ہیں۔ بلکہ وہ حکمران جو کہ اقتدار کے ایوانوں کی بھول بھلیوں کو نہیں سمجھتے، انکو بیوروکریسی اپنے شیشے کے جال میں اتار لیتی ہے۔ پاکستانی بیوروکریسی کلونیل ورثہ ہے اس لیے کسی بھی تبدیلی کے سخت مخالف ہے کیونکہ ایسا ہونے سے بیوروکریسی کی عیاشیاں اور اختیارات کم ہو جائیں گے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے ذیادہ ماموں بیوروکریسی نے ہی بنایا تھا، چاہے وفاقی حکومت تھی یا صوبائی حکومتیں، خاص طور پر پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت کو بیوروکریسی نے اپنی انگلیوں پر نچایا تھا۔
تحریک انصاف کی حکومت کے اقتدار میں آتے ہی بیوروکریسی نے عمران خان اور تحریک انصاف کو گھیر لیا۔ چونکہ تحریک انصاف کے منشور میں سول سروس ریفارمز کا ذکر تھا اس لیے بیوروکریسی نے بہت زیادہ چالاکی کا مظاہرہ کیا۔ مزید یہ کہ تحریکِ انصاف نے سول سروس کے ریفارمز کے نام پر جو ریفارمرز کا گروپ عشرت حسین کی سربراہی میں تشکیل دیا ، وہ بیوروکریسی نے ہی منتخب کروایا تھا۔
سول سروس ریفارمز کے نام پر یہاں دو مثالیں دی جا رہی ہیں۔
ایک ڈی ایم جی کی صوبوں میں 297 پوسٹس تھیں مگر انہوں نے خان صاحب کو باور کروایا کہ انکی 1700 پوسٹس ہیں ۔ اور ریفارمز کے نام پر خان صاحب اور کابینہ سے اپنی پوسٹس 1140 کروا لیں اور خان صاحب اس کو سمجھ ہی نہ سکے۔
دوسری مثال تو انتہائی تشویشناک ہے۔ پاکستانی سول سروس 1949 کے معاہدہ پر کھڑی ہے۔ اس ملک میں فراڈ دیکھیں کہ یہ معاہدہ ہوا ہی نہیں تھا۔ جب عدالت نے یہ معاہدہ مانگا تو عمران خان نے سول سروس کے معاہدہ کو کلاسیفائی کر دیا۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ سیکرٹری اسٹیب اور پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیراعظم نے خان صاحب کو بتائے بغیر ہی معاہدہ کلاسی فائیڈ قرار دے دیا ہو گا۔
جس کی تفصیل نیچے موجود ڈاکومنٹس اور ریپبلک پالیسی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر واضح ہے
سول سروس ریفارمز کے نام پر بیوروکریسی نے خان صاحب سے بہت سے غیر قانونی اور غیر آئینی کام کروائے ۔ سول سروس ریفارمز کے علاؤہ گورنمنٹ بزنس کے روزمرہ کے تمام امور میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ جبکہ عثمان بزدار کی پنجاب حکومت کی غیر قانونی بزنس ٹرانس یکشن کی مثال نہیں ملتی کیونکہ پنجاب میں بزدار نہیں ، بیوروکریسی ہی حکمران تھی۔
https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd
اب جبکہ عمران خان صاحب اور تحریک انصاف کی حکومت بننے جا رہی ہے تو پہلا چیلنج یہ ہو گا کہ وہ کیسے بیوروکریسی کو کنٹرول کرتے ہیں؟ بیوروکریسی کو کنٹرول کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حدود کا تعین انتہائی ناگزیر ہے۔ جب سے خان صاحب اور تحریک انصاف کی حکومت اقتدار سے اتری ہے انکو بیوروکریسی کی ورکنگ کا پتہ چل گیا ہو گا مگر اس میں قصور تحریکِ انصاف کا بھی ہے جس نے اس بدمست ہاتھی کو مزید طاقتور کیا تھا۔
خان صاحب اور تحریک انصاف کی حکومتوں نے گورننس کے لیے بیوروکریسی پر انحصار کیا تھا، اور اگر اب بھی انکے پاس کوئی انتظامی متبادل پلان نہیں ہے تو گورننس بہتر نہیں ہو سکتی۔ جب تک جنرل بیوروکریسی کی جگہ اسپیشلائز بیوروکریسی نہیں لائی جائیگی، اس وقت تک گورننس اور سروس ڈیلیوری کے مسائل حل نہیں ہونگے۔
آخرمیں پاکستان کے نظامِ حکومت میں بیوروکریسی کی صلاحیت سیاسی جماعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ ارکان پارلیمنٹ اور وزرا نہ ہی زیادہ پڑھے لکھے ہوتے ہیں اور نہ ہی ان میں بیوروکریسی کو لیڈ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف قابل اور مستعد امیدواران منتخب ہی نہیں کرواتی ہیں تو وہ بھلا کیسے بیوروکریسی، عدلیہ اور دوسرے سرکاری اداروں کو لیڈ کر سکتی ہیں۔
جب تک سیاسی جماعت کی قابلیت بیوروکریسی سے بہتر نہیں ہو گی ، گورننس اور سروس ڈیلیوری بہتر نہیں ہو گی۔
کیا تحریک انصاف یہ کر پائے گی ؟