جون ایلیا اپنے عہد کے اہم اور منفرد شاعر تھے۔ آپ ذرا مختلف اور انوکھے اندازِ تحریر کی وجہ سے الگ شناخت رکھتے تھے جو بہت سراہے جاتے تھے، جن کی شاعری آج بھی پوری طرح زندہ ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ جون ابھی زندہ ہیں۔ وہ کہیں گئے نہیں بلکہ اپنی شاعری سے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔
جون ایلیا سادہ، لیکن تیکھی تراشی اور چمکائی ہوئی زبان میں نہایت گہری اور شور انگیز باتیں کہنے والے ہفت زبان شاعر، صحافی، مفکر، مترجم، نثر نگار، دانشور اور بالاعلان نفی پرست اور انارکسٹ جون ایلیا ایک ایسے شاعر تھے جن کی شاعری نے نہ صرف ان کے زمانہ کے ادب نوازوں کے دل جیت لئے بلکہ جنھوں نے اپنے بعد آنے والے ادیبوں اور شاعروں کے لئے زبان و بیان کے نئے معیارات متعین کئے۔ جون ایلیا نے اپنی شاعری میں عشق کی نئی جہات کا سراغ لگایا۔ وہ باغی، انقلابی اور روایت شکن تھے لیکن ان کی شاعری کا لہجہ ا تنا مہذب نرم اور غنائی ہے کہ ان کے اشعار میں میر تقی میر کے نشتروں کی طرح سیدھے دل میں اترتے ہوئے سامع یا قاری کو فوری طور پران کی فنی خوبیوں پرغور کرنے کا موقع ہی نہیں دیتے۔
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
نگھرے کیا ہوئے کہ لوگوں پر
اپنا سایہ بھی اب تو بھاری ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
آپ میں کیسے آؤں میں تجھ بن
سانس جو چل رہی ہے آری ہے
اس سے کہیو کہ دل کی گلیوں میں
رات دن تیری انتظاری ہے
ہجر ہو یا وصال ہو کچھ ہو
ہم ہیں اور اس کی یادگاری ہے
اک مہک سمت دل سے آئی تھی
میں یہ سمجھا تری سواری ہے
حادثوں کا حساب ہے اپنا
ورنہ ہر آن سب کی باری ہے
خوش رہے تو کہ زندگی اپنی
عمر بھر کی امیدواری ہے