کثیرجہتی سربراہی اجلاسوں کی میزبانی ریاستوں کے لیے بہت وقار کی بات ہے، کیونکہ عالمی رہنما عالمی سیاست پر بات کرنے اور موجودہ اہم مسائل پر بات کرنے کے لیے ایک ہی میز پر جمع ہوتے ہیں۔ کووڈ-19 وبائی مرض کی وجہ سے بہت سی میٹنگزکو آن لائن کر دیا گیا تھا ، اب کیونکہ اس مرض میں کمی آگئی ہے تو دوبارہ سے آمنے سامنے بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود یہ عجیب بات ہے کہ ہندوستان، جو جولائی میں ذاتی طور پر شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن سربراہی اجلاس کی میزبانی کرنے والاہے ، نے ورچوئل طور پر تقریب کو منعقد کرنے کا فیصلہ کیوں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی رہنماؤں کے درمیان ذاتی بات چیت کا اثر زوم میٹنگ سے کہیں زیادہ ہو سکتا ہے۔ ہندوستانی وزارت خارجہ نے اس فیصلے کی وضاحت نہیں کی ہے، حالانکہ ہندوستان کے کچھ میڈیا اداروں نے مشاہدہ کیا ہے کہ دہلی نے روسی، چینی اور پاکستانی رہنماؤں کی ذاتی طور پر میزبانی کے بارے میں دوسرے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ جب تک منتظمین واضح نہیں کرتے، ان قیاس آرائیوں میں وزن ہوسکتا ہے۔
جہاں روس کا تعلق ہے، اگرچہ بھارت ماسکو کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہے، اس کی وجہ سے بھارت کے مغربی دوستوں کے ساتھ بات چیت اچھی نہیں رہی ہے، اس لیے بھارت نے واشنگٹن اور برسلز کو مزید ناراض نہ کرنے کی کوشش میں ورچوئل موڈ میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین سےبھی تعلقات کچھ بہتر ہوئے ہیں، بھار ت اور چین کے درمیان ہمالیہ میں ایک سرحدی تنازعہ گزشتہ چند سالوں میں کئی بار فوجیوں کے درمیان جان لیوا تصادم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ درحقیقت، نریندر مودی نے حال ہی میں ایک میڈیا آؤٹ لیٹ کو بتایا کہ بیجنگ کے ساتھ معمول کے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ”سرحدی علاقوں میں امن و سکون“ کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا مسٹر پوتن اور مسٹر ژی اس سال کے آخر میں جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، جس کی میزبانی بھی ہندوستان ہی کر رہا ہے ۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، بی جے پی کی قیادت نے شنگھائی تعاون تنظیم کے زیراہتمام دہلی میں مسٹر مودی اور شہباز شریف کے درمیان خوشگوار تبادلے سے راحت محسوس نہیں کی ہوگی۔ بھارت میں 2024 میں عام انتخابات ہونے والے ہیں، اور بی جے پی اپنے سب سے زیادہ ووٹروں کو خوش کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو سخت انداز میں دکھائے گا۔ اس کے علاوہ، بھارت کی جانب سے مئی میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے دوران بلاول بھٹو زرداری کو دیا گیا استقبال کچھ اچھا نہ تھا۔