محکمہ تعلیم گھوسٹ ملازمین کے خلاف میدان میں

[post-views]
[post-views]

سلیم دانش

تعلیم ہر شہری کا بنیادی اور اولین حق ہے۔ اور ریاست کو تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے تمام شہریوں کو یکساں اور موزوں تعلیم کی فراہمی کو ہرصورت یقینی بنانا چاہیے۔
ضلع جنوبی وزیرستان جیسے نئے ضم شدہ اضلاع میں تعلیم کی اہمیت پر شدت سے زور دینے کی ضرورت ہے مگر بدقسمتی سے ان علاقوں میں حکومت نے سکول و کالجز تو تعمیر کردیے  مگر دور دراز کے مضافاتی علاقوں کے اساتذہ اکثر و بیشتر اپنے اداروں سے غائب ہی رہتے ہیں ۔ عوام کے بھرپور مطالبے اور صوبائی محکمہ تعلیم کے نوٹس لینے پر ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفس(زنانہ)  جنوبی وزیرستان نے گھوسٹ ملازمین اور بوگس بھرتیوں کے خلاف ایکشن لینا شروع کردیا ہے جسکو عوامی حلقوں کی جانب سے کافی پذیرائی مل رہی ہے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والی علاقائی شخصیات کا کہنا ہے کہ گھوسٹ ملازمین در اصل ہمارے بچوں کے روشن مستقبل کے دشمن اور حکومتی خزانے پر بوجھ ہیں جن سے چھٹکارا پانا ہم سب کے لیے سودمند ثابت ہوگا۔ فاٹا انضمام کے بعد جنوبی وزیرستان میں تعلیم کی فراہمی کے لیے انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ پر کروڑوں روپے خرچ کیے گئے ہیں لیکن بدقسمتی سے تعلیمی اداروں کے قیام کے باوجود جنوبی وزیرستان کے مضافاتی علاقوں کے بچے حصول علم سے مستفید نہیں ہورہے جس کی بڑی وجہ ان مضافاتی سکولوں میں گھوسٹ اساتذہ کی بھرتیاں ہیں۔ مقامی بااثر افراد نے دور دراز علاقوں میں ایسے اساتذہ کی بھرتیاں کروا رکھی ہیں جنہوں نے آج تک اپنے سکولوں کا منہ تک نہیں دیکھا۔ گھوسٹ اساتذہ صرف قومی خزانے پر ایک بھاری بوجھ ہیں جس کے باعث معصوم بچے حصول علم سے محروم ہیں۔  جنوبی وزیرستان کی پسماندگی دور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں تعلیم پر بھرپور توجہ دی جائے۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.


ضلع جنوبی وزیرستان کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے فرضی اور بوگس بھرتیوں پر موجود اساتذہ و دیگر عملے کو نوکریوں سے برخاست کرنے کا آغاز کر دیا ہے۔تعلیمی حلقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا تھا کہ گھوسٹ ملازمین کو ڈھونڈنا اور انہیں نوکریوں سے فارغ کرنا ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر(زنانہ) غلام فاطمہ کا جنوبی وزیرستان جیسے پسماندہ علاقے میں معیار تعلیم کو مزید بہتر بنانے کی جانب ایک احسن اقدام ہے۔ اب گھوسٹ ملازمین کی جگہ اہل افراد کو بھرتی کیا جائے گا جو اپنی ملازمت بھرپور دیانتداری سے کرتے ہوئے علاقے میں تعلیمی تشنگی دور کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔
گھوسٹ ملازمین اور بوگس بھرتیوں کے بارے میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر(زنانہ) غلام فاطمہ کا کہنا تھا کہ جنوبی وزیرستان کی زنانہ ایجوکیشن میں سزا و جزا ءکا عمل شروع ہو چکا ہے جس کے بہتر نتائج برآمد ہو  رہے ہیں، دو درجن سے زائد خواتین  اساتذہ کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی گئی ہے اور مزید کے خلاف انکوائری جاری ہے۔ وہ دن دور نہیں جب جنوبی وزیرستان میں زنانہ ایجوکیشن بند اسکولوں کو کھولنے کے سبب  آج سے کئی گنا زیادہ ہوگی۔

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔
عوامی حلقوں نے ڈی ای او زنانہ غلام فاطمہ کی زیر نگرانی جنوبی وزیرستان زنانہ ایجوکیشن میں تعلیمی اصلاحات کو سراہا اور انکی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos