تحریک انصاف سیاسی مشکلات پہ کیسے قابو پا سکتی ہے؟

[post-views]
[post-views]

تحریر:      عمیر نیازی

سیاسی جماعتیں مقبول قائدین اور تنظیم سازی کی وجہ سے کامیابیاں سمیٹتی ہیں۔ حتیٰ کہ مقبول سیاسی قائد سے زیادہ اہم تنظیم سازی ہے۔ منظم سیاسی جماعتوں کو نہ تو قیادت کا فقدان ہوتاہے اور نہ ہی وہ ٹوٹتی، بکھرتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کبھی بھی منظم سیاسی جماعت نہیں رہی۔ تحریک کا لفظ بنیادی طورپر تنظیم سازی سے متضاد ہے۔ تحریک انصاف کو عمران خان نے ایک سیاسی جماعت کی بجائے ایک تحریک کی صورت میں ہی چلایا ہے۔ جس کی وجہ سے نظریاتی جدوجہد چلانے میں مشکل پیش آرہی ہے۔ جہاں عمران خان اور تحریک انصاف کی مقبولیت 70فی صد کے قریب ہے وہاں پر تحریک انصاف کی سیاسی سرگرمیوں کا ماند ہونا صرف کمزور تنظیم کی وجہ سے ہے۔

         تحریک انصاف کا مستقبل مضبوط تنظیم سازی پر منحصر ہے۔ تحریک انصاف پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی طرح قابل انتخاب پرمشتمل رہی ہے۔ گوکہ اب قابل انتخاب تحریک انصاف کو خیرآباد کہہ رہے ہیں  تو  تحریک انصاف کو منظم ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ منظم ہونے کا پہلا اصول یہ ہونا چاہیے کہ جماعتی عہدیداران اور الیکشن لڑنے والے اُمیدواران کو علیحدہ کردیاجائے۔ جماعتی عہدیداران صرف تنظیم سازی کا کام کریں۔ اب یہ نہیں ہوسکتا کہ صوبائی صدر وزیراعلیٰ بننے کا بھی اُمیدوار ہو۔ تحریک انصاف کے منظم ہونے کے لیے سب سے پہلے آئی ایس ایف کو منظم کرنا ہوگا۔ پاکستان میں طلباء سیاست پر پابندی ہے ۔تاہم سماجی رابطے کی حد تک تحریک انصاف پبلک اور پرائیویٹ کالجز، یونیورسٹیزاور دوسرے تعلیمی اداروں میں آسانی سے منظم ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد ویمن ونگ کو حلقہ جاتی سطح تک منظم کرنا چاہیے۔ پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے درجے کا تاجر طبقہ اپنی اکثریتی تعداد کی وجہ سے الیکشن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تحریک انصاف کو اپنا تاجر ونگ مضبوط کرنا چاہیے۔ اس کے ساتھ کسان ونگ، یوتھ ونگ، اوورسیز ونگ اور جنرل ونگ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ زمینی حقائق تحریک انصاف کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ اس لیے روایتی میل ملاپ کی بجائے سوشل میڈیا کے ذریعے جڑنے کی اشد ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کا صحیح استعمال سماجی میل ملاپ کے روایتی طریقوں سے کہیں زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ تحریک انصاف کے لیے لائرز ونگ اہمیت کا حامل ہے۔ تحریک انصاف کے لیے وکلاء بہترین اُمیدواران ثابت ہوسکتے ہیں۔وکلاء اُمیدواران ہونے کی صورت میں کم ازکم وہ نااہلی سے بچتے رہیں گے۔

Don’t forget to subscribe our channel& Press Bell Icon.

         تحریک انصاف کو نئے انتظامی ڈھانچے کی ضرورت ہے۔ ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عمران خان کو نااہلی یا سزا کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ تحریک انصاف کو مضبوط،شفاف اور وفادار کورکمیٹی قائم کرکے اختیارات اسے سپرد کردینے چاہئیں۔ تحریک انصاف کو اپنے آئین کو ازسرنو مرتب کرنا چاہیے۔ کسی شخص کو اختیارات دینے کی بجائے اختیارات کور کمیٹی کو دینے چاہئیں۔کور کمیٹی کے اراکین چاہے ملک کے اندر موجود رہیں یا بیرون ملک موجود رہیں، اس سے فرق نہیں پڑے گا۔ تحریک انصاف کے اندر عمران خان کے بعد کوئی دوسرا لیڈر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کور کمیٹی عمران خان کی ہی نمائندگی کرتے ہوئے تحریک انصاف کے فیصلے کرے۔ اسی کور کمیٹی کے پاس قومی، صوبائی،علاقائی اور اضلاع کے عہدیداران کو منتخب کرنے کا ڈائریکٹ یا اِن ڈائریکٹ اختیار ہو۔ تحریک انصاف کا حلقہ جاتی حد بندی کو مدنظر رکھتے ہوئے یونین کونسل کی سطح تک تمام ونگز کے ذریعے منظم ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے لیے ممبر سازی کمپین بھی کی جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تحریک انصاف کو منظم کرنے کے لیے ایک ماہ کافی ہوگا۔

         تحریک انصاف کو الیکشن لڑنے کے لیے بھی منظم ہونا ہوگا۔ تحریک انصاف پر پابندی کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ ایسے میں عمران خان صاحب کی دو سے زائد سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ہوں تاکہ پابندی کی صورت میں  د وسری سیاسی جماعت سے الیکشن لڑاجاسکے۔ تحریک انصاف کو ہرحلقے سے کم ازکم پانچ اُمیدوار تیار کرنے چاہئیں۔ پاکستان میں قومی اسمبلی کی 266اور پنجاب،خیبرپختونخواہ، سندھ، بلوچستان کی 297 ، 115، 130اور 65 نشستیں ہیں۔ اس لیے 958 نشستوں کے لیے پانچ ہزار اُمیدواران کا پول بنانا چاہیے۔ یہ پانچ ہزار کا پول تحریک انصاف یا کسی اور سیاسی جماعت کی طرف سے الیکشن لڑنے کے لیے کافی ہوگا۔ عمران خان کی مقبولیت پورے پاکستان میں 60سے 70فی صد کے درمیان ہے۔ اس لیے اس مقبولیت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے صرف بہتر تنظیم سازی چاہیے۔ مزیدبرآں کور کمیٹی کے ممبرز ، عہدیداران اور عمران خان ایک ہی تصویر کے مختلف زاویے ہونے چاہئیں۔ پاکستان کی سیاست میں شخص یا اشخاص پر بھروسہ کرنا خودکشی ہے۔         

آن لائن رپبلک پالیسی کا میگزین پڑھنے کیلئے کلک کریں۔

آخر میں پاکستان میں حلقہ جاتی سیاست رائج ہے۔ ہرحلقہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے ہرحلقے کے بیلٹ پیپر میں بلے یا عمران خان کا کوئی بھی نشان ضرور چھپنا چاہیے۔ یہ تحریک انصاف کا بنیادی چیلنج ہے۔ ایسا ہونے سے تحریک انصاف کا نظریاتی ووٹر اپنی پارٹی کو ووٹ ضرور دے گا۔ تحریک انصاف کا نظریاتی ووٹر اتنی تعداد میں ضرور ہے کہ وہ مقابلہ کرسکے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے 12کروڑ ووٹرز میں سے 6کروڑ ووٹرز حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ ان 6کروڑ ووٹرز میں سے 2کروڑ ووٹرز تحریک انصاف کے ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں آنے والے الیکشن ہرپارٹی کے لیے مشکل ترین الیکشن ہیں۔ جو پارٹی بہتر تنظیم سازی اور انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرے گی وہ اُتنا ہی بہتر رزلٹ حاصل کرے گی بشرطیکہ الیکشن شفا ف ہوں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos