لفظ و معنی کے جادوگر، شاعر بے مثال میر تقی میرؔ اردو غزل کا وہ آسیب ہیں کہ جو اس کی جکڑ میں آجاتا ہے، تا زندگی وہ اس کا مطیع رہتا ہے۔ میرؔ نے ان لوگوں سے بھی خراج عقیدت حاصل کیا جن کی اپنی شاعری میر سے بہت مختلف تھی۔ ان کی شاعرانہ عظمت کا اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو گا کہ زمانہ کے مزاجوں میں تبدیلیوں کے باوجود ان کی شاعری کی عظمت کا سکہ ہر عہد میں جما رہا۔ ناسخ ہوں یا غالب، قائمؔ ہوں یا مصحفیؔ، ذوقؔ ہوں یا حسرت موہانی، میر کے عقیدت مند ہر زمانہ میں رہے۔ ان کا اسلوب ناقابل تقلید ہے پھر بھی ان کی طرف لپکنے اور ان کے جیسے شعر کہہ پانے کی حسرت ہر عہد کے شاعروں کے دل میں بسی رہی۔
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے
چشم دل کھول اس بھی عالم پر
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
نقطۂ خال سے ترا ابرو
بیت اک انتخاب کی سی ہے
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اسی خانہ خراب کی سی ہے
آتش غم میں دل بھنا شاید
دیر سے بو کباب کی سی ہے
دیکھیے ابر کی طرح اب کے
میری چشم پر آب کی سی ہے
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے