زندگی درد بھی دوا بھی تھی

[post-views]
[post-views]

 امجد اسلام امجد سوچ میں ڈوب کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ مایوس ماحول میں امید کی شمع جلا کر پریشان حال لوگوں کو ان کی منزل کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر ان کی ڈھارس بندھاتا ہوا اور اپنے پراثر شعر سناتا ہوا ان کوان کی منزل پر لے کر پہنچ جاتا ہے۔ نشان منزل کوئی ان سے سیکھے۔ عصر حاضر کا منفرد اور یکتا شاعر۔ امید کا شاعر۔ جستجو کا شاعر۔ عشق و محبت کا شاعر۔ زندگی و بندگی کا شاعر۔ بے نیازی و خود داری کا شاعر۔ گل و گلزار و ریگزار کا شاعر۔نئی امنگوں کا شاعر۔ من میں ڈوب جانے والاشاعر۔ فطرت کے اندر جھانکنے والا شاعر۔ ہر کسی کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا شاعر۔ ہر کسی کی بات کرنے والا شاعر۔ بلکہ پوری زمین اور پورے آسمان کا شاعر۔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر

زندگی درد بھی دوا بھی تھی
ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی

کچھ تو تھے دوست بھی وفا دشمن
کچھ مری آنکھ میں حیا بھی تھی

دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن
شب کی آواز بے صدا بھی تھی

عشق نے ہم کو غیب دان کیا
یہی تحفہ یہی سزا بھی تھی

گرد باد وفا سے پہلے تک
سر پہ خیمہ بھی تھا ردا بھی تھی

ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں
میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی

کچھ تو تھی رہ گزر میں شمع طلب
اور کچھ تیز وہ ہوا بھی تھی

بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ
لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos