اور ہیں کتنی منزلیں باقی

[post-views]
[post-views]

منیر نیازی کی شاعری اک طویل جلاوطنی کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس شاعری میں حیران کر دینے والے، بھولے ہوئے، گمشدہ تجربوں کو زندہ کرنے کی ایسی غیر معمولی صلاحیت ہے جو دوسرے شاعروں میں نظر نہیں آتی۔ منیر کی شاعری کی وابستگی نظریات یا علوم  کے ساتھ نہیں بلکہ  شاعری کی اصل اور اس کے جوہر کے ساتھ ہے۔ خود کو بطور شاعر شناخت کر کے اپنے وجود کا بطور شاعر ادراک اور اس پر ایمان منیر نیازی کو اپنے عہد کے آدھے شاعروں میں پورے شاعر کا  درجہ دیتا ہے۔

اور ہیں کتنی منزلیں باقی
جان کتنی ہے جسم میں باقی

زندہ لوگوں کی بود و باش میں ہیں
مردہ لوگوں کی عادتیں باقی

اس سے ملنا وہ خواب ہستی میں
خواب معدوم حسرتیں باقی

بہہ گئے رنگ و نور کے چشمے
رہ گئیں ان کی رنگتیں باقی

جن کے ہونے سے ہم بھی ہیں اے دل
شہر میں ہیں وہ صورتیں باقی

وہ تو آ کے منیرؔ جا بھی چکا
اک مہک سی ہے باغ میں باقی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos