Premium Content

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

Print Friendly, PDF & Email

احمد فراز کا تعارف ( 1931-2008 )

احمد فراز 12 جنوری، 1931ء میں کوہاٹ پاکستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ تھا۔ اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔ جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ” تنہا تنہا ” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کر لی۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ ” درد آشوب “چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ “عطا کیا گیا۔ یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا۔ بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی ۔1989 سے 1990 چیرمین اکادمی پاکستان،1991 سے 1993 تک لوک ورثہ اور 1993 سے 2006ء تک ” نیشنل بک فاؤنڈیشن “کے سربراہ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹی وی انٹرویو کی پاداش میں انہیں” نیشنل بک فاؤنڈیش ” کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ احمد فراز نے 1966 ء میں ” آدم جی ادبی ایوارڈ ” اور 1990ء میں ” اباسین ایوارڈ “حاصل کیا۔ 1988 ء میں انہیں بھارت میں ” فراق گورکھ پوری ایوارڈ ” سے نوازا گیا۔ اکیڈمی آف اردو لٹریچر ( کینڈا ) نے بھی انہیں 1991ء میں ایوارڈ دیا، جب کہ بھارت میں انہیں 1992 ء میں “ٹاٹا ایوارڈ ” ملا۔

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی

یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں

غم دنیا بھی غم یار میں شامل کر لو

نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں

تو خدا ہے نہ مرا عشق فرشتوں جیسا

دونوں انساں ہیں تو کیوں اتنے حجابوں میں ملیں

آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

کیا عجب کل وہ زمانے کو نصابوں میں ملیں

اب نہ وہ میں نہ وہ تو ہے نہ وہ ماضی ہے فرازؔ

جیسے دو شخص تمنا کے سرابوں میں ملیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos