نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا

[post-views]
[post-views]

میراجی کا مختصر تعارف


میراجی جن کا اصل نام محمد ثناء اللہ تھا۔ منشی محمد مہتاب الدین کے ہاں 25 مئی 1912ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ پہلے “ساحری” تخلص کرتے تھے۔ لیکن ایک بنگالی لڑکی “میرا سین” کے یک طرفہ عشق میں گرفتار ہو کر میراجی” تخلص اختیار کر لیا۔ میراجی کی ذات سے ایسے واقعات وابستہ ہیں کہ ان کی ذات عام آدمی کے لیے ایک افسانہ بن کر رہ گئی ہے۔ اُن کا حلیہ اور ان کی حرکات و سکنات ایسی تھیں کہ یوں معلوم ہوتا تھا انہوں نے سلسلہ ملامیہ میں بیعت کر لی ہے۔ لمبے لمبے بال بڑی بڑی مونچھیں، گلے مالا شیروانی پھٹی ہوئی، اوپر نیچے بیک وقت تین پتلونیں اوپر کی جب میلی ہو گئی تو نیچے کی اوپر اور اوپر کی نیچے بدل جاتی۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں بہت کچھ ہوتا۔ کاغذوں اور بیاضوں کا پلندہ بغل میں دیے بڑی سڑک پر پھرتا تھا اور چلتے ہوئے ہمیشہ ناک کی سیدھ میں دیکھتا تھا۔ وہ اپنے گھر اپنے محلے اور اپنی سوسائٹی کے ماحول کو دیکھ دیکھ کر کڑتا تھا اس نے عہد کر رکھا تھا کہ وہ اپنے لیے شعر کہے گا۔ صرف 38 سال کی عمر میں نومبر 1949ء کو انتقال کرگئے۔ اس مختصر سی عمر میں میراجی کی تصانیف میں مشرق و مغرب کے نغمے ” “اس نظم ” نگار خانہ خیمے کے آس پاس شامل ہیں۔ جبکہ میراجی کی نظمیں گیت ہی گیت پابند نظمیں اور تین رنگ بھی شاعری کے مجموعے میں ہیں۔

میرا جی کے چند اشعار

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا

کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو

کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا

کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں

من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا

اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی

دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا

یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی

دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا

ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی

ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا

سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ

لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos