امجد اسلام امجد سوچ میں ڈوب کر مایوس نہیں ہوتا بلکہ مایوس ماحول میں امید کی شمع جلا کر پریشان حال لوگوں کو ان کی منزل کا راستہ دکھاتا ہے اور پھر ان کی ڈھارس بندھاتا ہوا اور اپنے پراثر شعر سناتا ہوا ان کوان کی منزل پر لے کر پہنچ جاتا ہے۔ نشان منزل کوئی ان سے سیکھے۔ عصر حاضر کا منفرد اور یکتا شاعر۔ امید کا شاعر۔ جستجو کا شاعر۔ عشق و محبت کا شاعر۔ زندگی و بندگی کا شاعر۔ بے نیازی و خود داری کا شاعر۔ گل و گلزار و ریگزار کا شاعر۔نئی امنگوں کا شاعر۔ من میں ڈوب جانے والاشاعر۔ فطرت کے اندر جھانکنے والا شاعر۔ ہر کسی کی سوچ کو جھنجھوڑنے والا شاعر۔ ہر کسی کی بات کرنے والا شاعر۔ بلکہ پوری زمین اور پورے آسمان کا شاعر۔ پاکستان کا بہت بڑا شاعر
اس نے آہستہ سے جب پکارا مجھے
جھک کے تکنے لگا ہر ستارا مجھے
تیرا غم اس فشار شب و روز میں
ہونے دیتا نہیں بے سہارا مجھے
ہر ستارے کی بجھتی ہوئی روشنی
میرے ہونے کا ہے استعارا مجھے
اے خدا کوئی ایسا بھی ہے معجزہ
جو کہ مجھ پر کرے آشکارا مجھے
کوئی سورج نہیں کوئی تارا نہیں
تو نے کس جھٹپٹے میں اتارا مجھے
عکس امروز میں نقش دیروز میں
اک اشارا تجھے اک اشارا مجھے
ہیں ازل تا ابد ٹوٹتے آئنے
آگہی نے کہاں لا کے مارا مجھے