بلوچستان کے شہر مستونگ میں جمعہ کو ہونے والا دھماکہ انتہائی افسوسناک اور دل دہلا دینے والا ہے۔ پورا ملک ان 55 افراد کے اہل خانہ کے ساتھ سوگوار ہے جنہوں نے اس حملے میں ایک پولیس افسر سمیت اپنی جانیں گنوائیں۔ ایک انتہائی سخت یاد دہانی کہ ملک کی دہشت گردی کی لعنت کے خلاف جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی، دھماکے میں عید میلاد النبی کے جلوس کو نشانہ بنایا گیا۔ ایسے مقدس دن پر امن میں خلل ڈالنا صاف بتاتا ہے کہ مجرموں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ، یہ دھماکہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ یہ کتنی بڑی حفاظتی خامی تھی اور امن و امان کی صورتحال کس طرح بگڑ رہی ہے اور توجہ طلب ہے۔ ہم انٹیلی جنس اپریٹس کی طرف سے بھی کمی دیکھتے ہیں۔ اگر بروقت انٹیلی جنس سرکلر کی جاتی تو سانحہ سے بچا جا سکتا تھا۔ حملوں میں اضافہ بروقت تیاری اور سیکورٹی اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ضرورت پر بھی زور دے رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں اسی دن ایک اور دھماکہ، اگرچہ شدت اور نقصان میں چھوٹا ہے، دہشت گردی کے خطرے کی جغرافیائی وسعت کا اشارہ ہے۔
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.
اگرچہ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ مستونگ دھماکے کی ذمہ داری کس نے قبول کی، تاہم اس کی مکمل تحقیقات ایک مثالی اقدام ہونا چاہیے۔ نقصان بڑا ہے ،لیکن تحقیقات اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ہماری ترجیحات درست ہیں۔ ملک نے برسوں میں دیکھا اور بہت نقصان اٹھایا جب اس طرح کے دھماکے ایک معمول تھے اور کسی قیمت پر اس تاریخ کو اپنے آپ کو نہیں دہرانا چاہئے۔
دہشت گردی نے ملک کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے، جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ترقی اور فلاح و بہبود کے دیگر شعبوں کو بھی مفلوج کر دیا ہے۔ حکمت عملی کی سطح پر ہم آہنگی اور نظریاتی سطح پر اتحاد اس وبا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے سب سے پہلے مطلوبہ حصول ہونا چاہیے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کو شہریوں کی اس بے جا تکالیف کو ختم کرنے کے لیے تیزی سے کام کرنا چاہیے۔