مصنف: طاہر مقصود
اپنے ہاتھوں ہی سے نظم وضبط کی مٹی خراب
مطمئن ہوں صورتحال سے کیونکرعوام
ہوں اگر پولیس کے افسر سیاست کا شکار
ملزموں کو پھانس سکتے ہیں کہاں دانہ و دام
کا سہ لیسی سے نہ ہو فرصت اگر حکام کو
روبہ منزل ہو نہیں سکتا حکومت کا نظام
اب کسی افسر میں ذاتی حوصلہ باقی نہیں
توڑ ڈالی بیسیوں خطرات نے اُن کی زمام
شورش کاشمیری صاحب کے یہ اشعار کافی عرصہ گزرنے کے باوجود حسب حال ہیں۔ جونیئر پولیس افسران کے رویہ سے عوام الناس اور سنیئر پولیس افسران ہمیشہ شکی رہے ہیں اور میں چالیس سالہ پولیس سروس کے باوجود یہ ماننے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ تھانہ میں عام آدمی جاتے ہوئے جھجھک محسوس کرتا ہے حا لانکہ فرنٹ ڈیسک کے قیام، آن لائن شکایت کی وصولی اور فرنٹ ڈیسک پر سویلین کو تعینات کرنے سے عوام الناس کو قدرے سہولت میسر آئی ہے۔ جس میں بہتری کی ابھی بہت گنجائش ہے۔ ایک دور تھا کہ تھانہ کو عقوبت خانے کا درجہ حاصل تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور سنیئر افسران کی مسلسل نگرانی سے تھانہ جات میں پولیس تشدد کی شکایت میں کافی کمی آئی ہے۔
پولیس نے لوگوں کو محفوظ ہونے کا احساس تو یقیناً دینا ہے مگر پولیس افسران کے باہمی تعلقات کیسے ہیں گذشتہ کچھ عرصے سے موضوع بحث ہیں ۔ پولیس کی کمانڈ ہمیشہ سے پی ایس پی افسران کے پاس رہی ہے اور یہ افسران پڑھے لکھے، انصاف پسند، دیانت داراور خوف خدا رکھنے والے سمجھے جاتے تھے اور یقیناً ایسے افسران موجود بھی تھے جن سے مل کر تمام آدمی کو یقین ہوتاتھا کہ اب اسکی عزت اور مال محفوظ ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ افسران پر عام آدمی کے اعتماد میں کمی آتی گئی ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ افسران اپنے طرز عمل سے اپنے ماتحتوں اور عوام الناس کے ساتھ دلوں میں گھر کر جاتے مگر یہاں کچھ عرصہ سے پی ایس پی افسران اور صوبائی افسران پولیس کے باہمی تعلقات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں اور آئے دن خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ انگریزی اخبار نے ریجنل پولیس آفیسر ملتان کے تبادلے پر دی گئی الوداعی ضیافت کو متنازعہ بتایا۔ ایک اخبار نے پولیس کا برہمن شودر نظام کے عنوان سے خبر لگائی تومیرے دوست عزیز اللہ خان صاحب نے نوری کا جہاں اور ہے ناری کا جہاں اور کے عنوان سے خوبصورت کالم لکھ دیا۔ خبرکی تفصیل یہ ہے کہ ریجنل پولیس آفیسر ملتان جوا یک پی ایس پی آفیسر تھے کہ تبادلے پر سٹی پولیس آفیسرملتان جو بھی ایک پی ایس پی آفیسر ہیں نے الوداعی ضیافت کا انتظام کیا مگر اس دعوت میں نہ صرف یہ کہ وہاڑی اور خانیوال اضلاع کے ڈی پی اوز جو کہ صوبائی کیڈر کے ایس پیز ہیں کو نہیں بلایا گیا بلکہ ملتان شہر میں موجود صوبائی کیڈر کے ایس پیز کو بھی نہیں بلوایا گیا اور جب یہ خبر عام ہوئی تو ملتان کی پولیس قیادت کی طرف سے یہ پتہ جوئی شروع کر دی گئی کہ یہ خبر اور فوٹو اخبار تک کیسے پہنچی حالانکہ آسان سی بات تھی کہہ دیا جاتا کہ یہ صرف پی ایس پی بھائیوں کی پارٹی تھی کیونکہ یہ بات تو ناقابل فہم ہے کہ کسی رینکر ایس پی کو دعوت میں بلوایا جاتا تو وہ دوڑا چلا نہ آتا۔
ایک اور خبر بھی ہے جو کہ اگرچہ پرانی ہے مگر حسب حال ہے۔ اس سال کے شروع میں بہت سے جونیئر اور سنیئر افسران پولیس مختلف کورسز کے لیے چوہنگ گئے مگر کسی آفیسر کو اجازت نہ تھی کہ وہ اپنی گاڑی کالج کے احاطہ میں پارک کر سکے اور کالج کے پارکنگ ایریا میں خوبصورت بورڈ آویزاں تھا جس پر تحریر تھا” کار پارکنگ برائے اے ایس پی صاحبان” کسی دل جلے نے اس بورڈ کی تصویر بنائی اور سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ تصویر وائرل ہو ئی تو پولیس ٹریننگ میں جیسے کہرام مچ گیا ہو۔ انکوائری ہوئی تو گوجرانوالہ ضلع سے تعلق رکھنے والے دو ڈی ایس پی صاحبان فوٹو بنانے اور وائرل کرنے کے قصور وار پائے۔ دونوں ڈی ایس پی صاحبان کو انسپکٹر جنرل پولیس پنجاب نے باقاعدہ شوکاز نوٹس جاری کیا ایک ڈی ایس پی کو محکمانہ سزا منثور بھی دے دی گئی جبکہ دوسرے ڈی ایس پی کا فیصلہ ہونا بقایا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بورڈ کی تصویر وائرل ہونے کے بعد بورڈ وہاں سے ہٹا دیا گیا یعنی یہ تسلیم کر لیا گیا کہ بورڈ یا بورڈ کی تحریر غلط تھی اگر ایسا تھا تو یقیناً ڈی ایس پی صاحبان کو سراہنا چاہیے تھا کہ اُنہوں نے غلطی کی نشاندہی کی تھی یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ کالج انتظامیہ نے یہ بورڈ لگانے والے اہلکاروں کے خلاف کیا کاروائی کی تھی یہ دو خبریں تو سامنے آگئیں مگر اس طرح کے واقعات روزانہ ہوتے ہیں پی ایس پی افسران کے خلاف انضباطی کاروائی چونکہ صوبہ میں نہیں ہو سکتی اس لیے بقول عزیز اللہ خان صاحب یہ نوری مخلوق اپنی من مانی کرتی ہےاور خود کو کسی سزاسے مبرا سمجھتی ہے۔ پولیس کی کمانڈ پی ایس پی افسران کے پاس ہے اس لیے ان کی ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے ساتھ تعلقات انصاف پر قائم رکھیں بصور ت دیگر باہمی نفرت کی خلیج بڑھتی جائے گی اور عام آدمی یہ کہنے پر مجبو ہو گا کہ تھانہ کلچر میں تبدیلی کا خواب دیکھنے سے پہلے پولیس افسران پولیس کلچر کو تبدیل کریں ۔ سورش کاشمیری کا یہ شعر حسب حال ہے
اپنے ہاتھوں ہی سے نظم و ضبط کی مٹی خراب
مطمئن ہوں صورت حال سے کیونکر عوام
2 thoughts on “تھانہ کلچر یا پولیس کلچر”
آپ کی تحریر سے 100 فیصد متفق ہوں اور پہلے نوری مخلوق چپ چاپ ایسے کام کرتی تھی اب کھلے عام کرتے ہیں چونکہ سزا صوبائی افسران کے لئے اور جزا وفاقی افسران کے لئے ھے
سب بھول جائیں کہ جلد کوئی تبدیلی آنے والی ھے یا نوری مخلوق آنے دے گی
اب 75 سال بعد لوگ لکھنا شروع ھوئے ہیں خوف کا بت ٹوٹنے میں وقت لگے گا۔
Wel done sir