Premium Content

سیاست دان اور افسر شاہی کی چالاکیاں

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: طاہر مقصود

یونس بٹ چھوٹے بھائیوں جیسا دوست ہےاور روزنامہ پاکستان میں ”کرائم ڈائری“کے عنوان سے کالم لکھتا ہے،وہ پولیس کا عمومی تاثر بہتر کرنے کیلئے اپنے قلم کا بے دریغ استعمال کرتا ہےاوراس کے ساتھ ساتھ پولیس کےاندر پائی جانے والی خامیوں اور پولیس پر بیرونی دباؤ کا اظہار بھی بڑی دلیری سے کرتا ہے۔صرف گزشتہ دو ہفتوں کے دوران اس کے لکھے ہوے چند کالموں کا جائزہ لیں تو عنوان کچھ یوں ہیں” پنجاب پولیس گروپ بندی کا شکار“،”پولیس خدمت کے آئینے میں“،”پولیس کی وردی میں کالی بھیڑیں“،”پولیس سے توقعات اور مسائل “،”پنجاب پولیس اور نگران حکومت“اس کے علاوہ بھی بہت سارے کالم لکھے ہیں۔ 23 اکتوبر کا لکھا ہوا کالم ”پولیس کب غیر سیاسی ہو گی “خاصہ دلچسپ ہے۔سب سے پہلے یہ جاننا ہو گا کہ کیا پاکستان کے حکمران چاہتے ہیں کہ پولیس غیر سیاسی ہو اور کیا پولیس خود بھی غیر سیاسی ہونا چاہتی ہے۔
یہ بات ہر کو ئی جانتا ہے کہ پولیس کا موجودہ ڈھانچہ انگریز کا بنایا ہوا ہے،اس ڈھانچہ کے مطابق تھانہ کی سطح تک کے افسران مقامی لوگ تھے اور یہ اس وقت کی ریاستی حکومت کے ماتحت ہو تے تھے اور یہ پولیس فورس کہلاتی تھی جبکہ تھانہ کی سطح سے اوپر افسران براہ راست تاج برطانیہ کو جواب دہ تھے اور انکی تقرری اور تعیناتی کے احکامات بھی وہیں سے آتے تھے۔ ان افسران کی معرفت تھانہ میں تعینات پولیس کو استعمال کرتے ہوے بدیسی حکمرانوں کے خلاف پائی جانے والی نفرت اور ممکنہ بغاوت کو کچلہ جاتا تھا اور اسکے بدلہ میں نفرت اور بدنامی پولیس فورس کے حصہ میں آتی تھی۔
ایکٹ آزادی ہند 1947 کے تحت پاکستان وجود میں آیا ۔انگریز یہ علاقہ چھو ڑ گئے اور جاتے ہوے تمام سروسز کا بھی خاتمہ کر گئے۔ قیام پاکستان کے بعد سیاست دانوں نے ملک کے لیے آئین بنانا تھا جس میں وہ ناکام رہے،اور ملک افسر شاہی نے اپنی مرضی کے مطابق گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کا سہارا لے کر چلایا۔ سیاست دانوں کی لاپرواہی اور نالائقی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کی افسر شاہی نے نہایت چلاکی کے ساتھ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کی دفعہ 363 (اس دفعہ کے تحت دو یا زاید صوبے باہمی معائدےکے تحت مشترکہ سروس بنا سکتے تھے)کو استعمال کرتے ہوئے پولیس سروس آف پاکستان بنا لی۔ یاد رہے بلوچستان 1970 میں صوبہ بنا تھا اور اس طرح پولیس ہر لحاظ سے دو حصوں (پولیس فورس اور پولیس سروس) میں تقسیم ہو گئی اور ملک نیا بننے کے باوجود پولیس کا نظام پرانا ہی رہا۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.


سانحہ1971 کے بعد موجودہ پاکستان کے لیے نیا عمرانی معاہدہ طے کیا گیا جس پر تمام سیاسی جماعتیں اور اکابرین متفق تھے یہ عمرانی معاہدہ آئین پاکستان 1973 کے نام سے جانا جاتا ہے۔اسی دور میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اصلاحات کی گئیں تو انتظامی اصلاحات کے نتیجہ میں سرکاری ملازمتوں کے مختلف گروپ تشکیل دیے گے انہی میں”پولیس گروپ“شامل تھا جس نے پولیس سروس آف پاکستان کی جگہ لی۔

اسی عرصہ میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اپنے اپنے ملازمین کی تقرری اور تعیناتی کے لیے سول سرونٹ ایکٹ ”پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں“ سے بالترتیب پاس کروا لیے انہی قوانین کے ذریعہ صدر اور صوبائی گورنروں کو اختیار دیا گیا کہ وہ ملازمین کی ملازمتوں کو ریگو لیٹ کرنے کے لیے قوائد بنا سکتے ہیں۔
افسر شاہی نے1985 میں ایک اور چالاکی کی ،صدر پاکستان کو دھوکے میں رکھتے ہوئے سول سرونٹ ایکٹ 1973 کی دفعہ25کے تحت صدر کو حاصل رول بنانے کے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے پولیس گروپ کا نام تبدیل کر کے” پولیس سروس آف پاکستان رکھ کے اسےآل پاکستان سروس “قرار دے دیا اور اس کے شیڈول میں صوبائی پوسٹوں کو پولیس سروس آف پاکستان کے لیے مخصوص بھی کر دیااور اس طرح آئین پاکستان کے آرٹیکل 240 کی واضع خلاف ورزی کی گئی۔
افسر شاہی کی ایک اور چالاکی ملاحظہ فرمائیں کہ1993 میں نگران دور حکومت میں وفاق اور صوبوں کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا کہ صوبوں میں چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی وفاقی حکومت کرے گی اوراس طرح عملی طور پر صوبائی حکومتوں کا اپنے ماتحت سرکاری افسران پر کو ئی انتظامی اختیار نہ ہے۔
تازہ ترین چالاکی یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ لاہور نے چیف سیکرٹری پنجاب کو حکم دیا کہ صوبہ میں تعینات ایسے افسران جو اپنے گریڈ سے بالا گریڈ (اوپی ایس)پوسٹ پر تعینات ہیں کو تبدیل کیا جائے کیونکہ اوپی ایس پوسٹنگ غیر قانونی ہے تو افسر شاہی نے اس کا یہ حل نکالا کہ پنجاب سول سرونٹ ایکٹ 1974 کی دفعہ 9 میں بذریعہ آرڈیننس ترمیم کر دی۔ اس ترمیم کے بعد حکومت کو یہ اختیار مل گیا ہے کہ وہ کسی بھی افسر کو اس کےگریڈ سے بالا عہدہ پر تعینات کر سکے اور یہ اس لیے کیا گیا کہ چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس سمیت بہت سے افسران اوپی ایس تعینات ہیں-اس قانون کے تحت حکومت بااختیار ہے کہ چاہے تو گریڈ 17 کے اسٹنٹ کمشنر کو چیف سیکرٹری اور گریڈ 17 کے اے ایس پی کو آئی جی تعینات کر دے۔ اس سے اقربا پروری بد عنوانی اور بد انتظامی کا جو دور دورہ ہو اس کی کسی کو کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے لیکر آج تک سیاسی اور غیر سیاسی حکومتوں نے اپنے سیاسی اور ذاتی مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے پولیس کا بے دریغ استعمال کیا ہے کبھی جھوٹے مقدمات درج کروا کر اور کبھی پولیس مقابلہ میں مروانے کی دھمکی دے کر،اور خود پولیس کو بھی یہی نظام موافق ہے کیونکہ اسی نظام کی وجہ سے ہی من پسند تعیناتیاں ہوتی ہیں، اس لیے فعل حال پولیس کا غیر سیاسی ہونا محال نظر آتاہے۔ یہ صرف ایک صورت میں ممکن ہے کہ سیاست دان خود سیاسی ہو جائیں اور آئین جو کسی بھی ملک کے لیے مقدس قانون ہو تاہے پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں ۔اور پولیس کا نظام بھی آئین کے مطابق ہو،اس وقت پولیس آرڈر تو اسمبلی سے پاس شدہ قانون ہے مگر پولیس سروس آف پاکستان سمیت پاکستان ایڈ منسٹریٹیو سروس اورپرووانشل مینجمنٹ سروس آئین کے آرٹیکل 240 کے مطابق نہ ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos