Premium Content

بیرسٹر گوہر خان چیئرمین تحریک انصاف اور لیگل ونگ کا بنیادی چیلنج

Print Friendly, PDF & Email

پاکستانی سیاسی جماعتوں کا بالعموم اور تحریک انصاف کا بالخصوص یہ چیلنج ہے کہ وہ کیسے 859 قومی و صوبائی اسمبلیوں کے امیدواران کے کاغذات نامزدگی منظور کروا سکتی ہے؟

ریپبلک پالیسی کے حالیہ سرویز کے مطابق اگر 859 نشستوں پر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار الیکشن لڑتے ہیں تو پاپولر ووٹ کی وجہ سے تحریک انصاف کو ہرانا مشکل ہو گا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین گوہر خان اور تحریک انصاف کے وکلاء کا اصل امتحان  859 امیدواروں کےکاغذات نامزدگی منظور کروانا ہے۔ اس سلسلے میں تحریک انصاف کو ہر حلقہ میں اپنے وکلاء ، ورکرز، آئی ایس ایف، نوجوانوں اور بنیادی سپورٹرز کو کاغذات جمع کروانے کا کہنا ہو گا تاکہ بعد میں جب ٹکٹ  دیے جائیں تو ہر حلقے میں پاکستان تحریک انصاف کا امیدوار میسر ہو۔ ہر حلقے میں تائید کنندہ اور تجویز کنندہ  بھی لازمی ہو تاکہ اگر کسی وجہ سے امیدوار کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوں تو اُس کے مقابل دوسرا امیدوار دستیاب ہو۔  پی ٹی آئی کو چاہیے کہ ایک حلقے میں  دو یا زائد آزاد امیدوار کھڑے کریں تاکہ بہتر امیدوار ٹکٹ دیتے وقت دستیاب ہو۔

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

ریپبلک پالیسی کے سروے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف خیبرپختونخوا اور پنجاب کے تمام اضلاع میں پاپولر ووٹ میں باقی تمام سیاسی جماعتوں سے آگے ہے۔ بلوچستان میں پشتون بیلٹ میں بھی پی ٹی آئی مقبول ہو رہی ہے اور مولانا شیرانی اور دوسرے مقامی فیکٹرز کو ملا کر اچھا اثر ڈال سکتی ہے۔

کراچی میں بھی پاکستان تحریک انصاف پاپولر ووٹ میں مقبول ہے۔ سندھ کے اندرون علاقوں میں بھی قابل انتخاب کے ذریعے اچھی کارکردگی دکھا سکتی ہے ، چاہے وہ نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں نہ بھی آ سکے۔

تحریک انصاف وفاقی جماعت ہے اور 266 نشستوں میں سے 225 نشستوں پر مقابلہ کی پوزیشن میں ہے۔ تاہم اس کا انحصار امیدواران کی موجودگی پر ہو گا ۔ اگر امیدواران ہی حلقوں میں نہیں ہوں گے تو تحریک انصاف کی مقبولیت کا انتخابی فائدہ نہیں ہو گا ۔

اس لیے اب اصل امتحان تحریک انصاف کے چیئرمین اور وکلاء کا ہو گا اور آخری آپشن کے طور پر وہ وکلاء کو ٹکٹس دے سکتے ہیں کیونکہ وکلاء بار کی سیاست کی وجہ سے انتخابی مہارت رکھتے ہیں۔ یہ یاد رہے کہ بار کی سیاست پاکستان کی مشکل ترین سیاست ہے اور اسکو سیاست کی نرسری بھی کہا جا سکتا ہے ۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos