Premium Content

پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل

Print Friendly, PDF & Email

حبیب جالب

سماجی ناہمواریوں کے خلاف قلم سے لڑنے والے جالب کی شاعری آج بھی لوگوں کو سچ پر ڈٹے رہنے کا درس دیتی ہے۔ اُنہوں  نے اپنی زندگی انقلاب کی امید میں جیلوں اور پولیس کے ہاتھوں مار پیٹ میں گزاری جس پر اُنہیں فخر تھا۔ انہوں نے ہر عہد میں سیاسی اور سماجی ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کی جس کی وجہ سے وہ ہر عہد میں حکومت کے معتوب اور عوام کے محبوب رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں ان کی نظم لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو، ضیاء الحق کے دور میں ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا اور بے نظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کی نظم وہی حالات ہیں فقیروں کے، دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے نے پورے ملک میں مقبولیت اور پذیرائی حاصل کی۔

پھر دل سے آ رہی ہے صدا اس گلی میں چل
شاید ملے غزل کا پتا اس گلی میں چل

کب سے نہیں ہوا ہے کوئی شعر کام کا
یہ شعر کی نہیں ہے فضا اس گلی میں چل

وہ بام و در وہ لوگ وہ رسوائیوں کے زخم
ہیں سب کے سب عزیز جدا اس گلی میں چل

اس پھول کے بغیر بہت جی اداس ہے
مجھ کو بھی ساتھ لے کے صبا اس گلی میں چل

دنیا تو چاہتی ہے یوں ہی فاصلے رہیں
دنیا کے مشوروں پہ نہ جا اس گلی میں چل

بے نور و بے اثر ہے یہاں کی صدائے ساز
تھا اس سکوت میں بھی مزا اس گلی میں چل

جالبؔ پکارتی ہیں وہ شعلہ نوائیاں
یہ سرد رت یہ سرد ہوا اس گلی میں چل

Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos