شاعر مزدور، احسان دانش کی شاعری قدرت کی اور اس ماحول کی عکاسی کرتی ہے جس میں انہوں نے مزدوری کی۔ چونکہ وہ خود مزدور تھے اس وجہ سے مزدور اور کمزور طبقہ کے لوگوں کے درد کو محسوس کرتے تھے۔
احسان دانش ایک دبستان علم و ادب کا نام ہے۔ وہ اردو ادب کے ایک درخشاں عہد کی نشانی ہیں۔ اردو ادب کی کوئی بھی صنف ہو ، عالمی ادبیات کی کوئی بھی جہت ہو اور معیار ادب کا کوئی بھی اسلوب ہو ہر جگہ اس لافانی ادیب کے افکار کا پر تو دکھائی دیتی ہے۔
نظر فریب قضا کھا گئی تو کیا ہوگا
حیات موت سے ٹکرا گئی تو کیا ہوگا
بزعم ہوش تجلی کی جستجو بے سود
جنوں کی زد پہ خرد آ گئی تو کیا ہوگا
نئی سحر کے بہت لوگ منتظر ہیں مگر
نئی سحر بھی جو کجلا گئی تو کیا ہوگا
نہ رہنماؤں کی مجلس میں لے چلو مجھ کو
میں بے ادب ہوں ہنسی آ گئی تو کیا ہوگا
شباب لالہ و گل کو پکارنے والو
خزاں سرشت بہار آ گئی تو کیا ہوگا
خوشی چھنی ہے تو غم کا بھی اعتماد نہ کر
جو روح غم سے بھی اکتا گئی تو کیا ہوگا
یہ فکر کر کہ ان آسودگی کے دھوکوں میں
تری خودی کو بھی موت آ گئی تو کیا ہوگا
لرز رہے ہیں جگر جس سے کوہساروں کے
اگر وہ لہر یہاں آ گئی تو کیا ہوگا
وہ موت جس کی ہم احسانؔ سن رہے ہیں خبر
رموز زیست بھی سمجھا گئی تو کیا ہوگا
Don’t forget to Subscribe our Youtube Channel & Press Bell Icon.