شنگھائی تعاون تنظیم کے وزراء کے اجلاس میں ہونے والی حالیہ پیشرفت بین الاقوامی تعاون کی طرف بڑھتی ہوئی رفتار کی نشاندہی کرتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ تنظیم کی عالمی تجارت میں خاطر خواہ اثر و رسوخ رکھنے کی صلاحیت ہے۔ اکتوبر میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کی پاکستان کی آئندہ میزبانی نہ صرف تنظیم کے اندر اس کی قابل ستائش قیادت کو اجاگر کرتی ہے بلکہ قوم کے لیے بین الاقوامی حیثیت کو بڑھانے اور رکن ممالک کے ساتھ گہرے اقتصادی روابط کو فروغ دینے کا ایک اہم موقع بھی پیش کرتی ہے، جس سے ایس سی او کے اندر اس کے قائدانہ کردار کے ممکنہ فوائد حاصل ہوتے ہیں۔
آج کے تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں، ایس سی او اور برکس جیسی تنظیموں کی اہمیت کو زیادہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ یہ پلیٹ فارم مغربی معیشتوں پر روایتی انحصار کا متبادل پیش کرتے ہیں، جو مغربی مرکوز تجارتی حرکیات سے آگے کامیابی کے لیے قابل عمل راستے پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ مغربی اثر و رسوخ کافی حد تک برقرار ہے، پاکستان اور دیگر ممالک کی جانب سے ایس سی او کے ذریعے متبادل اقتصادی مواقع کی تلاش نہ صرف حوصلہ افزا ہے، بلکہ مغربی توجہ مرکوز تجارتی حرکیات سے ممکنہ لچک اور آزادی بھی پیش کرتی ہے، جس سے زیادہ متوازن عالمی تجارتی نظام کی امید پیدا ہوتی ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم اقوام کو مغربی مفادات پر انحصار کم کرنے اور مضبوط علاقائی اتحاد بنانے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔
بھارت کی ممکنہ غیر موجودگی کے حوالے سے، پاکستان کو بھارت کی شرکت سے قطع نظر، آئندہ سربراہی اجلاس کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ ایشیائی بلاک سے ہندوستان کی دوری ملک کو بڑھتے ہوئے علاقائی پاور ہاؤس سے الگ تھلگ کرنے کا خطرہ بن سکتی ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کو دوسرے رکن ممالک کے ساتھ تعاون بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں ایک رہنما کے طور پر اپنی قابل اعتماد اور آگے کی سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے، اس طرح اس کی قیادت میں اعتماد پیدا کرنا چاہیے۔
آئندہ سربراہی اجلاس پاکستان کو علاقائی تعاون کے مستقبل کی تشکیل میں اپنے کردار کو مستحکم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جیسے جیسے عالمی حرکیات تیار ہو رہی ہیں، ایس سی او جیسے پلیٹ فارم آنے والے سالوں میں پاکستان کی اقتصادی اور تزویراتی ترقی کو یقینی بنانے میں اہم ثابت ہوں گے۔