ناصر عباس نیّر
ہر آدمی کےاندر ایک” جگہ ” ہوا کرتی ہے، جو کسی نقشے کے تحت تعمیر ہوتی ہے۔ کبھی یہ نقشہ دوسرے ترتیب دیتے ہیں، کبھی آدمی خود، کئی بار دونوں مل کر۔
یہیں وہ زندگی بسر کرتا ہے، اور یہیں ایک گوشہ تنہائی بھی تلاش کرتا ہے یا ترتیب دیتا ہے۔ یہیں وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے، واقعی اپنی زندگی
اپنی زندگی، اپنے” گھر “ہی میں بسر کی جاسکتی ہے، کسی اور کے گھر میں، نہ کسی کی قید میں۔
دوسروں کی قید میں، ہم نہیں، دوسرے ہماری زندگی جیتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ دوسرے ہماری زندگی جی ہی نہیں سکتے، وہ اسے خاک میں ملاسکتے، راکھ کرسکتے یا اسے رسوا کرسکتے ہیں۔
ہمارے اندر کے نقشے دوسرے بنائیں یا ہم خود بنائیں، ان کا کوئی شمار نہیں۔ ہماری تخلیقیت کا سب سے بڑا مظاہرہ انھی نقشوں کی ترتیب میں ہوتا ہے۔
کسی کے لیے اس کا اندر محل ہوتا ہے، کسی کے لیے مینشن اور کسی کے لیے محض ایک جھونپڑی۔
کوئی اسے حرم بناتا ہے تو کوئی بازار۔
اور کوئی اسے شارع عام بنا لیا کرتا ہے اور کوئی کسی پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتی تنہا پگڈنڈی۔
کسی کے لیے یہ ہرابھرا، گنجان جنگل ہوتا ہے، جہاں قسم قسم کے طیور ہوتے ہیں جو کسی وقت جنگل کے گہرے، خوف آ میز سکوت کی چادر کو اپنی چیخوں سے پھاڑ ڈالتے ہیں اور کسی وقت جنگل کی فضا کو ان گیتوں سے بھر دیتے ہیں جو ان کی روح سے برآمد ہوتے ہیں۔۔
اور کسی کے لیے، اس کا اندر بیاباں وصحرا ہوتا ہے۔۔ خشک کانٹے دار جھاڑیوں سے اٹا، جہاں دن بھر بگولے اٹھتے ہیں، اور وحشت رقص کرتی ہے۔
کسی کے لیے اس کا باطن، ایک پرشور پہاڑی ندی ہوا کرتا ہے، کسی کے لیے دریا جو زیادہ تر خاموش بہتا ہے مگر کسی کسی وقت اپنےکناروں کو کاٹ ڈالتا ہے۔
اور کوئی اسے سمندر بناتا ہے، بے کنار، گہرا، پر جلال۔
کوئی اسے ایک پرانی، ترک کی گئی حویلی بنالیتاہے، جہاں گزرے زمانوں کی روحیں، بھوت، آسیب، بیتال ہوا کرتے ہیں۔
تو کوئی ماں کی کوکھ کی مانند، ایک غار بنالیتا ہے۔
کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں، جن کے لیے ان کا دل ایک خانقاہ ہوتا ہے، جہاں خاموشی، مراقبے اور لاتعلقی کی دوامی کیفیت ہوا کرتی ہے۔
کسی کے لیے اس کا اندر قید خانہ ہوتا ہے، جہاں کوئی کرن پہنچتی ہے نہ کوئی جھونکا، اور نہ کوئی صدا۔
کسی کے لیے اس کا دل ایک ایسا طاقچہ ہوتا ہے، جس میں ایک کتاب ہے، ایک چراغ ہے۔ کتاب، جسے پڑھا نہیں گیا، چراغ جسے جلایا نہیں گیا۔
دنیا میں جتنی جگہیں واقعی وجود رکھتی ہیں، جہاں آدمی رہا بسا ہوتا ہے، جنھیں ترک کیا ہوتا ہے، یا جہاں رہنے بسنے کا خواب دیکھا ہوتا ہے، یا جن کا محض تخیل باندھا ہوتا ہے، یا جو اس کے خوابوں میں کبھی، بے حد پراسرار طریقے سے ظاہر ہوئی ہوتی ہیں، یا جن کا اس سے وعدہ کیا گیا ہوتا ہے۔۔ وہ سب جگہیں، آدمیوں کے اندر کا نقشہ ترتیب دیا کرتی ہیں۔
اس سے بہت فرق پڑتا ہے، بلکہ سارا فرق اس سے پڑتا ہے کہ آدمی اپنے اندر کا نقشہ کیا بناتا ہے۔ اس سے بھی بہت فرق پڑتا ہے کہ کیا وہ سدا کے لیے ایک ہی “جگہ ” اپنے اندر تعمیر کرتا ہے، یا زیادہ “جگہیں”۔ فردوس نما جگہ بھی، دوزخ بن سکتی ہے، اگر اس کے داخلی راستے کے پہلو میں باہر جانے کا راستہ نہ بنایا جائے۔