سہیل وڑائچ کے کالم کا تنقیدی جائزہ

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

سہیل وڑائچ پاکستان کے معروف کالم نگار ہیں جو اپنی عوامی زبان اور مخصوص بیانیہ سازی کے باعث ایک وسیع حلقہ قارئین رکھتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عام فہم اسلوب اور مکالمہ نما انداز پایا جاتا ہے جو عام قاری کو متوجہ کرتا ہے۔ تاہم ان کا حالیہ کالم “پہلی ملاقات فیلڈ مارشل سے” سنجیدہ صحافت اور فکری تجزیے کے بنیادی تقاضوں پر پورا نہیں اترتا۔ اس کالم نے کسی ٹھوس پیغام کی بجائے زیادہ تر ابہام، مبالغہ اور سوالات کو جنم دیا ہے۔

ریپبلک پالیسی ویب سائٹ فالو کریں

اس کالم کی سب سے نمایاں کمزوری اس کا اسلوب ہے۔ ریاستی اور سیاسی معاملات پر لکھتے وقت ایک مخصوص سنجیدگی اور معروضیت درکار ہوتی ہے۔ وڑائچ نے حساس موضوعات کو کہانی کے انداز میں پیش کیا جس میں دوستانہ جملے اور غیر رسمی مکالمے غالب ہیں۔ اگرچہ یہ طرز بیان عام قاری کے لیے دلچسپ ہو سکتا ہے لیکن ریاست، سیاست اور عسکری قیادت جیسے معاملات میں یہ سطحیت اعتبار کو نقصان پہنچاتی ہے۔

ریپبلک پالیسی یوٹیوب فالو کریں

کالم میں حوالہ جات اور دلائل بھی غیر واضح اور غیر معیاری ہیں۔ قرآن کی آیات، تاریخ اور عالمی تعلقات کا ذکر تو کیا گیا مگر ان کا سیاق و سباق اور وضاحت شامل نہیں کی گئی۔ ریکوڈک سے سالانہ دو ارب ڈالر منافع کی بات کی گئی مگر اس کے ساتھ کوئی اقتصادی دلیل یا معتبر اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔ عالمی طاقتوں کے ذکر کو بھی محض عمومی جملوں تک محدود رکھا گیا جس سے تجزیہ کمزور محسوس ہوا۔

ریپبلک پالیسی ٹوئٹر فالو کریں

کالم کا بنیادی مقصد بظاہر مخصوص قیادت کو مثبت انداز میں پیش کرنا تھا۔ تاہم اس مقصد میں کامیابی نہیں ملی کیونکہ تحریر کا انداز زیادہ تر پروپیگنڈہ نما تھا۔ بجائے اس کے کہ قیادت کے اقدامات اور پالیسیوں کو منطقی دلائل سے پیش کیا جاتا، غیر حقیقی تعریفوں اور مبالغہ آمیز دعوؤں پر انحصار کیا گیا۔ سنجیدہ قارئین کے لیے یہ انداز مزید سوالات کو جنم دیتا ہے کہ اگر قیادت واقعی مستحکم ہے تو اس کے دفاع کے لیے سطحی کالم کیوں لکھنے پڑے؟

ریپبلک پالیسی فیس بک فالو کریں

یہ کالم ان ہی شخصیات کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ثابت ہوا جنہیں مضبوط دکھانے کی کوشش کی گئی۔ جب دفاع مبالغہ، کہانی پن اور غیر معیاری حوالوں پر مبنی ہو تو قاری یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ ان شخصیات کے پاس سنجیدہ اور معتبر ذرائع موجود نہیں۔ یوں بیانیے کو تقویت دینے کے بجائے کمزور کر دیا جاتا ہے۔

ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک فالو کریں

اکیڈمک تنقید کے اصولوں کے مطابق کسی بھی تحریر کو ربط، معروضیت، دلائل اور توازن پر پرکھا جاتا ہے۔ وڑائچ کے کالم میں ان میں سے کوئی پہلو نمایاں نہیں۔ ربط کے بجائے تحریر کہانی کے بہاؤ میں بکھری ہوئی ہے۔ معروضیت کی جگہ شخصیت پرستی اور مبالغہ ہے۔ دلائل کے بجائے عمومی دعوے اور اشارے ہیں۔ توازن کے بجائے یکطرفہ بیانیہ اور شخصی عقیدت پیش کی گئی ہے۔ یہ تمام عناصر مل کر تحریر کو سنجیدہ کالم کے بجائے ایک سطحی داستان بنا دیتے ہیں۔

ریپبلک پالیسی انسٹاگرام فالو کریں

یہ کالم اس بات کی واضح مثال ہے کہ ریاستی اور سیاسی بیانیہ سازی کے لیے سطحی انداز ناکافی ہے۔ سنجیدہ صحافت تحقیق، فکری دیانت اور متوازن تجزیے کی متقاضی ہے۔ بصورت دیگر بیانیہ سازی اپنے مقصد کے بجائے معکوس اثرات مرتب کرتی ہے۔ سہیل وڑائچ کا یہ کالم اسی کی ایک مثال ہے جس نے بجائے کسی قیادت کو تقویت دینے کے ان کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔

ریپبلک پالیسی واٹس ایپ فالو کریں

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ سہیل وڑائچ کا کالم ایک ناکام صحافتی تجربہ تھا۔ اس نے زبان و بیان، معروضیت اور شواہد کے حوالے سے کمزوریاں ظاہر کیں۔ یہ حقیقت اجاگر ہوئی کہ سیاست اور ریاست کے معاملات پر سطحیت اور مبالغہ بیانیہ کو مضبوط نہیں بلکہ کمزور کرتے ہیں۔ پاکستان میں صحافت اور بیانیہ سازی کو سنجیدہ بنانے کے لیے تحقیق پر مبنی دلائل اور متوازن رویہ اختیار کرنا ناگزیر ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos