مصنف: ڈاکٹر محمد نصراللہ
ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں کہ شیڈو انسانی ذات کا کل نہیں، آدھا حصہ ہوتا ہے۔ نارمل انسان کسی وقت غصے، کسی وقت نرم رویے کا اظہار کرتے ہیں۔کبھی نفرت، کبھی محبت کا اظہار کرتے ہیں؛مگر ہم اپنے معاشرے کا غیرجانبدارانہ مشاہدہ کریں تو دیکھتے ہیں کہ کچھ انسان نہیں، زیادہ تر انسان کبھی کبھارہی نہیں، اکثر غصے، نفرت، پریشانی اور منافقت کا اظہار کرتے ہیں۔وہ صحت مند خیالات اور احساسات میں ہونے کے تجربے سے گزرنا بھول جاتے ہیں۔وہ اپنے مقدر کا انتخاب کر چکے ہوتے ہیں۔ہم میں سے ہر کوئی زندگی کی کھیتی میں کچھ نہ کچھ ضرور بوتااورکاٹتا ہے۔ ہمیں پرسکون لمحوں میں اپنے آگے یہ سوال رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے زندگی میں اپنے اور دوسروں کے بارے کیا فیصلے کیے؟دوسروں نے اپنے اور ہمارے بارے کیا فیصلے کیے؟ موجودہ گھڑی میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ بزدل بننا ہے یا جرات مند؟ کاہل یاذمہ دار؟خود غرض یا انسان دوست؟ ہمیں اپنی زندگی، دوسروں کی زندگی کو کانٹوں سے کیسے بچانا ہے؟ اپنے ساتھ جنم لینے والے شیطان سے، دوسروں کے شر سے کیا اور کیسے معاملہ کرنا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے دہرانے کی ہر عہد میں ضرورت رہی ہے۔ ہم جس زمانے اور جس دنیا میں ہیں اس میں انفرادی و اجتماعی سطح پر انسانی رویوں اور سوچوں کا جائزہ لینا، ان پر بات کرنا،سائے کا دیانت داری سے سامنا کرنا ازحد ضروری ہے۔شیڈوآرکی ٹائپ ہمیں اپنی زندگیوں پر نظرثانی کرنے کا موقع دیتا ہے۔ از سر نو اپنی شخصیات کو ترتیب دینے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ شیڈو بظاہر زخم ہے؛ مگر درحقیقت یہ آپ اپنا مرہم ہے۔ انسان ایک آدھ زخم کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا۔ ان زخموں کو ایک آدھ بار نہیں، بار بار دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ شیڈو سزا ہے، یہ وہ پتھر ہے جسے سسی فس(یونانی اساطیر کا کردار) پہاڑ پر پہنچاتا ہے؛مگر وہ لڑھک کرروز روز نیچے آجاتا ہے۔شیڈو کا سامنا کرنا ہمارے اندر مایوسی نہیں، امید پیدا کرتا ہے۔ پہلے سے بہترنظر آنے کی امید۔یہ امید مرنی نہیں چاہیے۔ امید اگلا دن دیکھنے کی آرزو سے عبارت ہوتی ہے۔یہ ایک سرگرمی ہوتی ہے۔ جس میں زندگی ہوتی ہے۔ سب جانتے ہیں انسانی خباثت ہمیشہ سے ہے،اس کا خاتمہ نہیں ہو پائے گا۔یہ حقیقت بظاہر تکلیف دہ ہے؛مگر یہی حقیقت ہمارے اندر اس شیطانیت کو قبول کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرتی ہے۔ یہی ظلمت ہمارے دل، ہماری روح کی گہرائیوں میں کہیں نہ کہیں یہ آرزو پیدا کرتی ہے کہ ہم روشن ہو جائیں، ہم سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے، دنیا امن کی جگہ بن جائے۔ جنگیں نہ ہوں۔ قتل و فساد نہ ہوں۔کوئی کسی کے حقوق غضب نہ کرے۔کوئی کسی کے جینے، نشوونما پانے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔ بلاشبہ انسان کے اندربدکار بھی ہوتاہے؛مگرخوش آئند بات یہ ہے کہ انسان کے اندر انسان ہونے کی صلاحیت اور ہمت بھی ہوتی ہے۔ تاریکی میں سے گزرکے روشنی میں پہنچنے کا تجربہ ہر کوئی نہیں کرپاتا۔ فطرت کو ہر زمانے میں ایسے تجربہ پسندوں کی ضرورت رہی ہے۔ انھی کی وجہ سے دنیا کا توازن قائم ہے۔اسی توازن سے زندگی کا حسن ہے، یہی حسن آرٹ ہے۔ انسان ہونے کے مقام تک پہنچنے کا معنی ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان فرشتہ بن جائے؛بلکہ انسان ہوجانے کے معنی یہ ہیں کہ انسان کے اندر انسانی اوصاف بھی ہوں۔وہ اپنی تنہائی میں اعلٰی اقدار کی جستجو جاری رکھے،ا نھیں اپنے اندر ڈھونڈنے،زندہ رکھنے کی فکر زندہ رکھے۔
شیڈو الارم ہے۔ ہم اس کی آواز اپنے اندر سنیں تو یہ ہمیں ہمارے اندر پلنے والے خطرات سے آگاہ کرتا ہے۔ دنیا بھر کے ادب میں منفی کرداروں کے سیاہ اعمال اس لیے دکھائے جاتے ہیں کہ انسانی مخلوق کے منفی پہلوؤں کا اپنی انتہا تک سامنا کرلیا جائے۔ ظلمت کا اظہار بلواسطہ طور پر روشنی ہی کی یاددہانی ہے۔ ظلمت کے اظہار میں یہ معنویت بھی ہوتی ہے کہ ہمیں انتخاب کرنے میں سہولت ہو، ہم یہ جان لیں کہ ہمیں کیا نہیں ہونا۔ایمائل زولا کے ناولوں میں انسانوں کی منفی خصوصیات کے اظہار کے پیچھے بھی اسی فکر کی کارفرمائی ہے کہ آخری حد تک ظلمت کا سامنا کیا جائے۔
تہمینہ درانی کے ناول(کفر)میں بھی ہم جس کردار سے ملتے ہیں؛ وہ اخلاقی اعتبار سے لارنٹ(ایمائل زولا کے ناول”تھریسا“ کا کبیری کردار) سے کسی صورت کم تر نہیں ہے۔ پیر سائیں مذہب کے نام پر ہیر (کبیری کردار)پر ظلم ڈھانے کی اخیر کرتاہے۔ وہ جنسی درندگی کی انتہاؤں کو چھوتا ہے۔ ہیر کو مکاری سے ہتھیا کر اس پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑتا ہے۔ یہ ایک مظلوم عورت کی سچی کہانی ہے۔مذہب کے سیاسی استعمال کی آئینہ دار کہانی۔
ناول نگار انسان کے اندر پھیلی ہوئی سیاہی کی تہہ تک رسائی حاصل کرتی ہے۔ وہ فطرت نگاروں ہی کے مانند انسانی ذات کی حقیقت کاسراغ لگاتی ہے۔
منٹو بھی انسانی ذات کے تاریک گوشوں میں اترتا ہے؛ مگر وہ انسانی زندگی کے حیوانی پہلوؤں کو دکھانے کے علاوہ انسانی فطرت میں پوشیدہ حسن کے سرچشموں کو بھی دریافت کرتاہے۔ وہ انسان کی اصلیت سے مایوس نہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ وہ کسی مخصوص آئیڈیالوجی کے تحت افسانوں میں اخلاقیات کا پرچار کرتا ہے؛ بلکہ وہ انسانی فطرت کی حقیقت کے پیش نظر ہی برے کرداروں کے اند ر بھی انسانیت کا سراغ پالیتا ہے۔ یہ انسانیت مبلغ بن کر تلاش نہیں کی جاتی بلکہ انسان کے اندر انسانیت کے امکان کی کھوج کے نتیجے میں سامنے آتی ہے۔ ”ٹھنڈا گوشت“ میں ایشر سنگھ جیسے’حیوان‘ میں سے انسانیت کی رمق تلاش کر لینا اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ منٹو کو انسانی فطرت کی سنگ دلی کے ساتھ اس کی رحم دلی پر بھی اعتبار تھا۔
سوال یہ ہے کہ آخری حد تک ظلمت کا سامنا کیوں کیا جائے؟کوئی قاری یا لکھاری یہ کیوں چاہے گاکہ وہ تاریکی کی انتہا کو کلی طور پر گرفت میں لے؟ تاریکی کی انتہا کو مکمل طور پر مٹھی میں لینے کی جسارت، انسانی مخلوق سے متعلق کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوئے بغیر حقیقت جیسی ہے، جو ہے اسے کھلی آنکھوں سے دیکھنے کی جرات سے عبارت ہے۔ حقیقت کو قبول کرنے والا رویہ،حقائق سے نظریں پھیرنے کے بجائے ان کے روبرو ہونے کی کاوش کے مترادف ہے۔حقیقت،پسند کی جانے والی شے نہیں ہوتی، اسے قبول کرنے کی مشق کی جاتی ہے۔حقیقت سے لڑا نہیں جاتا، اسے جانا، سمجھا قبول کیا جاتا ہے۔ اکثرانسان لالچی،ظالم، خود غرض، تھڑدلے،حاسد،خود پسند، ریاکار، متکبر، ملکیت پسنداور احمق ہوتے ہیں۔ یہ انسانی نفسیات سے متعلق تلخ سچائیاں ہیں۔ہر کوئی انھیں اپنے اندر نہیں دیکھ پاتا۔جو اپنے اندر یہ سب کچھ دیکھتا ہے، وہ خود کو برا لگتا ہے۔ خود کو برا لگنا یا خود کے اندر کوئی بات بری لگنا بری بات نہیں ہوتی۔ یہیں سے بہتری کا امکان جنم لیتا ہے۔ جس روز واقعی میں ہمارے اندر سے یہ آواز آجاتی ہے کہ جھوٹ بولنا، بات بات پہ غصے ہونا، خوف زدہ اور فکر مند ہونا اچھی بات نہیں، ہم جھوٹ بولنا، غصے ہونا، ڈرنا، فکرمند رہناچھوڑ دیتے ہیں۔ ہمیں حالت خوف و غصہ میں ضرورت ہوتی ہے اس خیال کی کہ ہم ان لمحوں میں خود کا فاصلے سے مشاہدہ کر سکیں۔اپنے آپ کے ساتھ ہوتے ہوئے، اپنے آپ ہی سے الگ ہوکے خود کو دیکھ سکیں۔ خوف اور غصے کی وجہ جان سکیں، ناخوشگوار وجوہات اور عوامل کو قبول کرنے کی سکت اپنے اندر پیدا ہونے کا انتظار کرسکیں، وقت کو تھوڑا سا گزرنے دیں، اسی دوران میں کوئی دوسرا لائحہ عمل اختیار کرسکیں؛مگر بالعموم ہوتا یہ ہے کہ جو بات ہمیں پریشان کر رہی ہوتی ہے، ہم اکثر اسی کے ساتھ چمٹے رہ جاتے ہیں۔یہاں ہم زندگی کو مختصر کرنا شروع کردیتے ہیں۔یہ حقیقت ہے اس دنیا میں آکر انسان کوکئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے؛مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ کئی پریشانیاں حقیقت میں نہیں،محض خودساختہ، انسان کے اپنے ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں۔ہم اپنے ذہن کوماضی یا مستقبل کی کسی فکریا پریشانی کے ساتھ جوڑے رکھتے ہیں،حال کا ساتھ نہیں دے پاتے۔ یوں جینے کے قابل کئی لمحوں کو کھودیتے ہیں۔اس صورت حال کے حوالے سے سنی کا کا یہ کہنا بجا ہے
It is not that we have so little time but we loose so much.