ناصر عباس نیر
چھت کی جانب جاتی ہوئی چیونٹیوں نے دیکھا کہ اس کمرے میں مدت بعد آدمیوں کی آواز سنائی دی ہے۔ان کے ننھے قدم رک گئے۔کچھ دیر تو انھیں سمجھ ہی نہ آئی کہ وہ کیا کریں۔ان میں سے چند ایک بوڑھی چیونٹیاں ایسی تھیں ،جنھیں وہ زمانہ کچھ کچھ یا دتھا ،جب اسی کمرے میں ہر شام ایک شخص کبھی اکیلا،اور کبھی دوستوں کے ساتھ شراب پیتا تھا،اور بھنا ہو ا گوشت کھاتا تھا۔ بھنے ہوئے گوشت کے کچھ ذرے ادھر ادھر بکھر جاتے تھے ،تو ان کی اشتہاان چیونیٹوں کو اپنی جانب کھینچ لے جاتی۔
وہ بے خود سی ہوکر ان پر ٹوٹ پڑتیں۔بھنے گوشت کی ریخوں سے کہیں کہیں ایک عجب بو انھیں محسوس ہوتی،جو کافی ناگوار ہوتی۔ یہ آدمی بھی عجب مخلوق ہے۔یہ شکم سے نہیں دماغ سے کھاتاہے۔ وہ سوچتیں۔ پھر اچانک یہ کمرہ خالی ہوگیا۔ چیونٹیاں مہینے ،سال کی مددسے وقت کا حساب نہیں رکھتیں، وہ صرف روشنی اور اندھیرے کو پہچانتی ہیں۔اگلے دن بھول جاتی ہیں کہ کل کیا ہوا تھا۔مگر یہ سب چیونٹیوں کویا دتھا کہ اس کمرے کے صرف جنوبی روشن دان سے کچھ دیر کے لیے روشنی آتی تھی، ورنہ اندھیر اہی رہتا۔ ان بوڑھی چیونٹیوں نے اس کمرے کو کچھ عرصہ پہلے دوبارہ روشن دیکھا،اور وہی ناگوار بو۔ایک نئی ،عجب بات اور بھی تھی۔
ایک نئی مخلوق وہاں نظر آئی۔ ایک بڑی بوڑھی چیونٹی نے سب کی حیرت کو محسوس کرکے کہا کہ یہ سور ہیں،جنھوں نے کچھ عرصہ پہلے آدمیوں کو یہاں سے نکال کر اپنی حکومت قائم کرلی ہے۔ اس پر باقی چیونٹیاں رقص کرنے لگیں۔ ٹھہرو، ابھی آگے کا قصہ بھی سنو،جسے سن کر تم رقص کرنا بھول جائو گی ۔سور،آدمیوں کو نکال کر خود آدمی بن گئے ہیں۔ چادر والے بستروں پر سوتے ہیں،سیب اور گوشت کھاتے ہیں،اور اب شراب بھی پینے لگے ہیں،اور آدمیوں ہی کی طرح وقت بے وقت جنسی عمل کرنے لگے ہیں،اور جہاں بیٹھتے ہیں، صرف دوطرح کی باتیں کرتے ہیں، جنس اور سیاست کی۔ اور انھی باتوں سے ایک بڑی سلطنت چلا رہے ہیں۔
آج انھوں نے آدمیوں کو بلایا ہے۔ آدمیوں کو بھی عجب نہیں لگا۔ دیکھو، دونوں مل کر ایک ہی جگہ شراب پی رہے ہیں، بھنا ہوا گوشت کھارہے ہیں،اور ایک دوسرے سے فحش باتیں کررہے ہیں،اور ایک دوسرے کو اپنے اپنے رموز مملکت بتا رہے ہیں۔
ابھی یہ بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ سب نے ایک انوکھی بات دیکھی۔ ان کے چہرے ایک دوسرے سے بدل گئے تھے۔ ٹانگوں سے آدمی اور چہرے سے سور،اور چہرے سے آدمی اور ٹانگوں سے سور۔ سب چیونٹیاں اس بوڑھی چیونٹی کے گرد جمع ہوگئیں ۔
میرے لیے بھی یہ ایک معماہے۔میں عمر میں تم سے بڑی ہوں، مگر میرا مغز بڑا نہیں۔لیکن میں نے سن رکھا کہ جو بات سمجھ میں نہ آئے، اس پر تھوڑی دیر خاموشی اختیار کی جائے تو پھر خود بہ خود سمجھ آنے لگتی ہے۔
سب خاموش ہوگئیں۔ سب نے آنکھیں بند کرلیں۔ تھوڑی دیر بعد سب نے اس بوڑھی چیونٹی کی طرف دیکھا۔ وہ اب تک چپ تھی۔ وہ سب ڈر گئیں۔ انھوں نے کبھی اس طرح کا نہ تو نیا منظر دیکھا تھا ،نہ کبھی سوچا تھا۔ اکثرتو بے زار ہوکر چل پڑیں۔انھیں بھنے ہوئے گوشت کی اشتہا نے اپنی طرف کھینچ لیا۔ دوایک رک گئیں۔ انھوں نے تب تک انتظار کیا،جب تک بوڑھی چیونٹی خود نہیں بولی۔
ہاں ،مجھے کچھ کچھ سمجھ آرہا ہے۔ ان سب نے چہرے آپس میں نہیں بدلے۔ آدمیوں کے پاس کئی چہرے ہیں۔ وہ سور، بھیڑیے، کتے، ہاتھی، شیطان ، دیوتا ،سب کے چہرے رکھتا ہے۔ پریشانی صرف یہ ہے کہ سوروں کے پاس کہاں سے آدمی کا چہرہ آگیا؟
جب انھوں نے آدمیوں کی طرح رہنا بسنا شروع کیا تو اپنا چہرہ بھی آدمیوں کی طرح بنالیا۔ ایک چیونٹی نے رائے دی۔
ہونہہ، ہوسکتا ہے۔جس کے نقش قدم پر چلا جائے، اس کا چہرہ اور شناخت دونوں مل جاتے ہیں۔ بوڑھی چیونٹی بولی۔
کیا ہمیں بھی آدمی کا چہرہ مل سکتاہے؟ ایک نو عمر چیونٹی نے جوش سے سوال کیا۔
ہمارے پاس اتنی چھوٹی آنکھیں ہیں کہ ہم آدمی کاپورا چہرہ نہیں دیکھ پاتیں،اور پھر ہمیں کیا معلوم کہ کون سا چہرہ آدمی کااصلی چہرہ ہے؟جس لمحے ہم اس کے چہرے کی خواہش کریں ،اگر اس وقت اس نے بھیڑیے کا چہرہ چڑھا رکھا ہو ،یا ہاتھی کاتو پھر؟؟
ہاں اتنی ننھی ٹانگوں پر اتنا بڑا منہ ، توبہ ،توبہ ۔ہمیں اپنا چہرہ ہی ٹھیک ہے۔ ویسے ہمارا چہرہ ہے کیسا؟ وہی نوعمر چیونٹی بولی۔
کم ازکم نہ آدمی جیسا ہے ،نہ سور جیسا۔ بوڑھی چیونٹی نے خوش ہو کر کہا ،جیسے اس نے کوئی بہت بڑی بات دریافت کرلی ہو۔
شراب اوربھنے ہوئے گوشت کا سیاست اور جنس سے کوئی تعلق ضرور ہے۔ نو عمر چیونٹی پھر بولی۔
لگتا ہے ،تم میں بھی آدمی کادماغ سما گیا ہے۔بوڑھی چیونٹی بولی۔ تم بھنے ہوئے گوشت سے زیادہ ،اس کے ذکر میں لذت محسوس کررہی ہو۔ ہاں، اب بات سمجھ میں آئی، آدمی کو دماغ کی لذت زیادہ پسند ہے۔ جنس اور سیاست کے بارے میں سوچنے اور باتیں کرنے میں زیادہ لذت ہے۔ان کی کوئی کہانی ،ان دوباتوں کے ذکر کے بغیر نہیں ہوتی۔
ایک بات تم بھول رہی ہو۔ تم نے اس بوڑھے کو نہیں دیکھا جو باربار سینے کی طرف ہاتھ لے جارہا ہے۔ نوعمر چیونٹی نے اشارہ کیا۔
اسے کیا کہتے ہیں، ہاں ،یاد آیا مذہب۔ جب یہ تھک جاتے ہیں،یا بوڑھے ہوجاتے ہیں ،یا سیر ہوجاتے ہیں تو روتے ہیں، نادم ہوتے ہیں، معافی مانگتے ہیں۔کبھی کبھی تو ایڑیاں اور ماتھابھی رگڑتے ہیں۔خدا، خدا کہتے ہیں۔
کیا یہ بھی دماغ کی لذت ہے؟ نوعمر چیونٹی نے سوال کیا۔
مجھے ان کی ساری باتیں تھوڑی معلوم ہیں، پر میں اپنے تجربے سے کہہ سکتی ہوں کہ آدمی نے اصل لذت پر دماغ کی لذت کو ہمیشہ ترجیح دی ہے۔ اور ان کا دماغ ہماری قطار کی مانند ہے۔ چلتا ہی رہتا ہے۔ تم دیکھنا، ابھی انھوں نے سور کا چہرہ پہناہے،کچھ دیر میں یہ بھیڑیے بنیں گے، پھر خوںخوار کتوں کی مانندایک دوسرے پر غرائیں گے، پھر بدمست ہاتھی بن جائیں گے، پھر سوروں کی طرح اپنی اور دوسروں کی عورتوں کو بھنبھوڑ ڈالیںگے، پھر بے سدھ ہوکر گدھے کی طرح خراٹے لیں گے،اور پھر اگلے دن پارسا نظر آئیں گے۔ افسوس سوروں کا ہے ،جو نہ پورے آدمی بن سکیں گے ،نہ پورے سور باقی رہیں گے۔
اس سے پہلے کہ ہم بھی آدمیوں کی طرح دماغ کی لذت کا شکار ہوکر بس باتیں کرتی رہیں، آؤان کی بچی ہوئی خوراک سے اپنا پیٹ بھریں،اور اس کا شکر ادا کریں جس نے ہمیں آدمی یا سور نہیں بنایا۔