افغان قوم پرستی اور ڈیورنڈ لائن کا تنازعہ

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان حالیہ کشیدگی نے ایک ایسی گہری دراڑ کو نمایاں کر دیا ہے جو صرف سیکیورٹی یا عسکریت پسندی تک محدود نہیں۔ اب یہ واضح ہوتا جا رہا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) محض افغان سرزمین پر سرگرم ایک عسکری گروہ نہیں رہی، بلکہ یہ افغان قوم پرستی کے اس وسیع بیانیے کا حصہ بن چکی ہے جو ڈیورنڈ لائن کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔

ویب سائٹ

طالبان حکومت کے لیے اس سرحد کو تسلیم نہ کرنا صرف ایک سیاسی مؤقف نہیں بلکہ اقتدار کے جواز کا ذریعہ بھی ہے۔ “افغان قوم پرستی” کے نعرے کے تحت کابل تمام نسلی گروہوں—پشتون، تاجک، ازبک اور دیگر—کو ایک پرچم تلے اکٹھا کرتا ہے، اور خود کو پاکستان کے مقابلے میں افغان خودمختاری کا محافظ ظاہر کرتا ہے۔ یہ بیانیہ حکومت کی اندرونی کمزوریوں کو چھپانے اور عوامی حمایت برقرار رکھنے کا ایک مؤثر حربہ بن چکا ہے۔

یوٹیوب

پاکستان کو اس چیلنج سے جذبات کی بجائے حکمت اور تدبر کے ساتھ نمٹنا چاہیے۔ تاریخ ایک سبق فراہم کرتی ہے: اگر افغانستان احمد شاہ ابدالی کی سلطنت کو اپنا تاریخی ورثہ قرار دیتا ہے تو پاکستان بھی مغل یا رنجیت سنگھ کے ادوار کی مثال دے سکتا ہے جب اقتدار کابل تک پھیلا ہوا تھا۔ مگر جدید ریاستیں تاریخی فتوحات کی بنیاد پر تعمیر نہیں ہوتیں بلکہ اصولوں، اداروں اور بین الاقوامی قانون پر کھڑی ہوتی ہیں۔

ٹوئٹر

لہٰذا پاکستان کو دفاعی ردِعمل کے بجائے ایک عالمی بیانیہ تشکیل دینا چاہیے جو بین الاقوامی قانون، علاقائی استحکام اور باہمی احترام پر مبنی ہو۔ افغان قوم پرستی کا جواب جذبات یا تصادم سے نہیں بلکہ سفارت کاری، ترقی اور علاقائی تعاون سے دیا جانا چاہیے۔ افغان مسئلے کا حل بصیرت، ضبط اور پاکستان کے تاریخی جواز اور وفاقی طاقت پر اعتماد کے ساتھ ممکن ہے۔

فیس بک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos