منیر نیازی کی شاعری اک طویل جلاوطنی کی پہلی جھلک دیکھنے سے مماثلت رکھتی ہے۔ اس شاعری میں حیران کر دینے والے، بھولے ہوئے، گمشدہ تجربوں کو زندہ کرنے کی ایسی غیر معمولی صلاحیت ہے جو دوسرے شاعروں میں نظر نہیں آتی۔ منیر کی شاعری کی وابستگی نظریات یا علوم کے ساتھ نہیں بلکہ شاعری کی اصل اور اس کے جوہر کے ساتھ ہے۔ خود کو بطور شاعر شناخت کر کے اپنے وجود کا بطور شاعر ادراک اور اس پر ایمان منیر نیازی کو اپنے عہد کے آدھے شاعروں میں پورے شاعر کا درجہ دیتا ہے۔
آئی ہے اب یاد کیا رات اک بیتے سال کی
یہی ہوا تھی باغ میں یہی صدا گھڑیال کی
مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں
رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی
شہر میں ڈر تھا موت کا چاند کی چوتھی رات کو
اینٹوں کی اس کھوہ میں دہشت تھی بھونچال کی
شام جھکی تھی بحر پر پاگل ہو کر رنگ سے
یا تصویر تھی خواب میں میرے کسی خیال کی
عمر کے ساتھ عجیب سا بن جاتا ہے آدمی
حالت دیکھ کے دکھ ہوا آج اس پری جمال کی
دیکھ کے مجھ کو غور سے پھر وہ چپ سے ہو گئے
دل میں خلش ہے آج تک اس ان کہے سوال کی