Premium Content

اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا

Print Friendly, PDF & Email

پروین شاکر نئے لب و لہجہ کی تازہ بیان شاعرہ تھیں، جنھوں نے مرد کے حوالے سے عورت کے احساسات اور جذباتی مطالبات کی لطیف ترجمانی کی۔ ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری والی روایتی عشقیہ شاعری ہے اور نہ کُھل کھیلنے والی رومانی شاعری۔ جذبہ و احساس کی شدّت اور اس کا سادہ لیکن فنکارانہ بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ ہے۔ ان کی شاعری ہجر و وصال کی کشاکش کی شاعری ہے جس میں نہ ہجر مکمل ہے اور نہ وصل۔ جذبہ کی صداقت،رکھ رکھاؤ کی نفاست اور لفظیات کی لطافت کے ساتھ پروین شاکر نے اردو کی نسائی شاعری میں اک ممتاز مقام حاصل کیا۔

اک ہنر تھا کمال تھا کیا تھا
مجھ میں تیرا جمال تھا کیا تھا

تیرے جانے پہ اب کے کچھ نہ کہا
دل میں ڈر تھا ملال تھا کیا تھا

برق نے مجھ کو کر دیا روشن
تیرا عکس جلال تھا کیا تھا

ہم تک آیا تو بہر لطف و کرم
تیرا وقت زوال تھا کیا تھا

جس نے تہہ سے مجھے اچھال دیا
ڈوبنے کا خیال تھا کیا تھا

جس پہ دل سارے عہد بھول گیا
بھولنے کا سوال تھا کیا تھا

تتلیاں تھے ہم اور قضا کے پاس
سرخ پھولوں کا جال تھا کیا تھا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos