مصنف: نیرمصطفی
میں خود کو بہ طور ادیب شناخت کرتا ہوں اور ادب کو ہی اپنا بنیادی حوالہ مانتا ہوں ، یہی وجہ ہے کہ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیمز پر اپنی پیشہ وارانہ اور نجی زندگی کے بجائے اپنی سماجی اور ادبی زندگی کا احوال شیئر کرتا ہوں ۔ لیکن گیارہ جنوری دو ہزار تئیس وہ عجیب و غریب دن تھا جب ایک غیر محسوس سے انداز میں زندگی کے تمام بہ ظاہر متنوع اور متضاد ٹکڑے یکجا ہوتے دکھائی دیے۔
یہ دن کئی حوالوں سے بہت خاص اور منفرد تھا۔ پہلے تو یہ کہ لگ بھگ ساڑھے دس برس ایک ہی دفتر میں نوکری کرنے کے بعد اسے الوداع کہنے کا وقت آ گیا تھا۔ اس بات کی خوشی بھی تھی کہ خدا خدا کر کے پیشہ ورانہ جمود ٹوٹا اور دکھ بھی کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس نامی اس لگ بھگ ڈیڑھ مربع کلومیٹر کے احاطے کو چھوڑ کر جانا پڑ رہا تھا، جو میری زندگی کے کچھ اہم ترین کرداروں اور واقعات کا مسکن تھا ؛ یہ وہ جگہ تھی جہاں مجھے استاد بھی ملے اور شاگرد بھی ، دوست بھی میسر آئے اور دشمن بھی ؛ یہی وہ مقام تھا جہاں میں نے خود کو پہچانا اور اپنی زندگی کی بیشتر ترجیحات کا تعین کیا۔
سرکاری دفاتر کا ماحول بالعموم گھٹا ہوا ، جمود زدہ اور روایتی ہوتا ہے۔ اظہارِ ذات اور جدت طرازی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں۔ آپ کا نظریہ حیات ثانوی چیز بن کر رہ جاتا ہے ۔ روایتی سرکاری دفاتر کے مقابلے میں عدالت ایک نہایت دلچسپ اور متحرک جگہ ہے جہاں ہر رنگ و نسل کے لوگوں سے تفاعل کا موقع ملتا ہے۔ سماج کی ہر پرت سے مکالمے کی سہولت میسر آتی ہے۔ زندگی کی رعنائیاں اور کٹھنائیاں زیادہ گاڑھی اور واضح ہو کر سامنے آتی ہیں۔ اگر آپ یہاں ملازمت یا پریکٹس کرتے ہیں تو آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بہت زیادہ سٹیک ہولڈرز ہونے کے باعث اتھارٹی کا تصور دھندلا اور مبہم ہو جاتا ہے۔ممکن ہے یہ دھندلاہٹ اور ابہام کچھ لوگوں کے لیے باعثِ آزار ہو ، تاہم مجھ ایسوں کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ ہے کیوں کہ اس کے باعث ہمیں اپنے وژن آف لائف کے اظہار کا موقع ملتا ہے، اسی کی بدولت ہمیں وہ سب کچھ بننے کا موقع ملتا ہے، جو ہم ہیں یا ہونا چاہیں۔
مجھے یہ بات ماننے میں کوئی عار نہیں کہ میں ایک ناکام سرکاری افسر ہوں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں کبھی ایک کامیاب افسر نہ بن پاوں گا کہ کامیاب افسر وہ ہوتا ہے جو طاقت کے مراکز کو شناخت کرنا، انہیں عزت و تکریم دینا اور باوقت ضرورت استعمال کرنا جانتا ہو ۔ ہر کامیاب افسر کے پیچھے ( کم از کم ) ایک طاقت ور آدمی کا ہاتھ ہوتا ہے اور ناکام افسر کے پیچھے اس کا اپنا، جسے وہ اس لیے بِھی ہٹانے سے ڈرتا ہے کہ کہیں ستر پوشی کا بھرم نہ کھل جائے۔ اس احاطے میں قدم رکھنے سے پہلے میں اس بات سے یکسر لاعلم تھا کہ میں نے ایک کامیاب سرکاری افسر بننا ہے یا ایک ناکام سرکاری افسر ، میرے وژن آف لائف کا فائدہ ایک عام آدمی اٹھائے گا یا ایک طاقت ور سماجی فرد۔ اس چار دیواری نے مجھے آگاہی دی کہ طاقت کے مراکز سے لاتعلق رہ کر بھی سرکاری نوکری کی جا سکتی ہے، اور آپ کے افسرانِ بالا آپ سے خوش ہوں یا ناراض، اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عوام الناس اور آپ کے دفتر سے متعلق افراد پر آپ کی موجودگی کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس دفتر کا مجھ پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے مجھے ایک ناکام افسر بننے کا حوصلہ دیا اور میری آنے والی پیشہ ورانہ زندگی آسان کر دی۔
گیارہ جون دو ہزار بارہ کو جب میری بطور سپیشل جوڈیشل مجسٹریٹ بہاول پور تعیناتی ہوئی تو میرے پاس قانون کا علم یا لاء کی ڈگری تو دور ، کوئی چھوٹا موٹا ڈپلومہ بھی نہیں تھا ۔ نہ ہی میں کبھی کسی بار کا ممبر رہا تھا ۔ بہاول پور ڈسٹرکٹ بار کے دوستوں ، کولیگ ججوں اور اپنے عملے کی مہربانی سے کچھ نہ کچھ لاء تو سیکھ گیا،لیکن ایل ایل بی کی ڈگری آج بھی میرے پاس نہیں ہے ، چنانچہ آپ بہ خوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ لمحہ کتنا قیمتی اور معتبر ہوگا جب بہاول پور بار ایسوسی ایشن نے مجھے تاحیات ممبرشپ ایوارڈ کی ہوگی ۔ گیارہ جنوری دو ہزار تئیس اس لیے بھی ایک مختلف دن تھا کہ اس نے مجھے یہ آگہی اور اطمینان دیا کہ ہر غیر روایتی کہانی کا انجام افسردہ اور ٹریجک نہیں ہوتا۔
2 thoughts on “ایک ناکام سرکاری افسر کی ڈائری کا ایک ورق”
بہت عمدہ تحریر ہے ۔ہمیں آپ جیسے مزید افسران اور افراد کی ضرورت ھے
نئیر جی اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ ادب نواز اور خوبصورت لکھنے والے ادیب ہیں ۔ نوکری بھی ضروری ہے اور آپ نے دونوں فرائض بخوبی نبھاے ہیں