زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

[post-views]
[post-views]

امیر خسرو

امیر خسرو ان نابغۂ روزگار ہستیوں میں سے ایک تھے جو صدیوں بعد کبھی جنم لیتی ہیں۔ خسرو نے ترکی النسل ہونے کے باوجود کثیر نسلی اور کثیر لسانی ہندوستان کو ایک وحدت کی شکل دینے میں بے مثال کردار ادا کیا۔ ان کی شخصیت بجائے خود متنوع تھی۔ وہ بیک وقت شاعر، مدبّر، سپہ گر، صوفی، امیر اور درویش تھے۔ انہوں نے ایک طرف بادشاہوں کے قصیدے لکھے تو دوسری طرف اپنی شیریں بیانی سے عوام کا دل بھی موہ لیا۔ امیر خسرو ان لوگوں میں سے تھے جن کو قدرت صرف محبت کے لئے پیدا کرتی ہے۔ ان کو ہر شخص اور ہر چیز سے محبت تھی اور سب سے زیادہ محبت ہندوستان سے تھی جس کی تعریف کرتے ہوئے ان کی زبان نہیں رکتی۔ وہ ہندوستان کو دنیا کی جنّت کہا کرتے تھے۔ ہندوستان کی ہواؤں کا نغمہ ان کو مست اور اس کی مٹی کی مہک ان کو بےخود کر دیتی تھی۔ جب اور جہاں موقع ملا انہوں نے ہندوستان اور اس کے باشندوں کی جس طرح تعریفیں کی ہیں اس کی کہیں دوسری جگہ مثال نہیں ملتی۔ پشت در پشت صدیوں سے ہندوستان میں رہنے والا بھی جب ہندوستان کی بابت ان کے بیان پڑھتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان کے حقیقی حسن سے وہ پہلی بار دوچار ہو رہا ہے۔

Don’t forget to Subscribe our channel & Press Bell Icon.

امیر خسرو کا اصل نام ابوالحسن یمین الدین تھا۔ وہ 1253ء میں ایٹہ ضلع کے قصبہ پٹیالی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد امیر سیف الدین، چن گیزی فتنہ کے دوران، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحد پر واقع مقام کش(موجودہ شہر سبز) سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور ایک ہندوستانی امیر عماد الملک کی بیٹی سے شادی کر لی۔ خسرو ان کی تیسری اولاد تھے۔ جب خسرو نے ہوش سنبھالا تو ان کے والد نے ان کو خوشنویسی کی مشق کے لئے اپنے وقت کے مشہور خطّاط سعد اللہ کے حوالہ کر دیا لیکن خسرو کو پڑھنے سے زیادہ شعر گوئی کا شوق تھا وہ وصلیوں پر اپنے شعر لکھا کرتے تھے۔ شروع میں خسرو “سلطانی” تخلص کرتے تھے بعد میں خسرو تخلص اختیار کیا۔ خسرو جب جوانی کی عمر کو پہنچے تو غیاث الدین بلبن ملک کا بادشاہ تھا اور اس کا بھتیجا کشلو خاں عرف ملک چھجّو امراء میں شامل تھا۔ وہ اپنی جود و سخا کے لئے مشہور اور اپنے وقت کا حاتم کہلاتا تھا۔ اس نے خسرو کی شاعری سے متاثر ہو کر اپنے درباریوں میں شامل کر لیا۔ اتفاق سے ایک دن بلبن کا بیٹا بغرا خان، جو اس وقت سمانہ کا حاکم تھا محفل میں موجود تھا۔ اس نے خسر کا کلام سنا تو اتنا خوش ہوا کہ ایک کشتی بھر رقم ان کو انعام میں دے دی۔ یہ بات کشلو خان کو ناگوار گزری اور وہ خسرو سے ناراض رہنے لگا۔ آخر خسرو بغرا خان کے پاس ہی چلے گئے جس نے ان کی بڑی قدرومنزلت کی بعد میں جب بغرا خان کو بنگال کا حاکم بنایا گیا تو خسرو بھی اس کے ساتھ گئے۔ لیکن کچھ عرصہ بعد اپنی ماں اور دہلی کی یاد نے انہیں ستایا تو وہ دہلی واپس آ گئے۔ دہلی آ کرو ہ بلبن کے بڑے بیٹے ملک محمد خان کے مصاحب بن گئے۔ ملک خان کو جب ملتان کا حاکم بنایا گیا تو خسرو بھی اس کے ساتھ گئے۔ کچھ دنوں بعد تیمور کا حملہ ہوا۔ ملک خان لڑتے ہوئے مارا گیا اور تاتاری خسرو کو قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ دو برس بعد خسرو کو تاتاریوں کے چنگل سے رہائی ملی۔ اس عرصہ میں انہوں نے ملک خان اور جنگ میں شہید ہونے والوں کے درد ناک مرثئے کہے۔ جب خسرو نے بلبن کے دربار میں یہ مرثئے پڑھے تو وہ اتنا رویا کہ اسے بخار ہو گیا اور اسی حالت میں کچھ دن بعد اس کی موت ہو گئی۔ بلبن کی موت کے بعد خسرو امرائے شاہی میں سے ایک خان جہاں کے دربار سے وابستہ ہوئے اور جب اسے اودھ کا حاکم بنایا گیا تو اس ساتھ ہوگئے۔ خسرو دو برس اودھ میں رہنے کے بعد دہلی واپس آ گئے۔ خسرو نے دہلی کے گیارہ بادشاہوں کی حکومت دیکھی اور بادشاہوں یا ان کے امیروں سے وابستہ رہے۔ سبھی نے ان کو نوازا یہاں تک کہ ایک موقع پر انہیں ہاتھی کے وزن کے برابر سکّوں میں تولا گیا۔ اور یہ رقم ان کو انعام میں دی گئی۔ خسرو نہایت پُر گو شاعر تھے۔ اکثر تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ان کی ابیات کی تعداد تین لاکھ سے زیادہ اور چار لاکھ سے کم ہے۔ اوحدی نے لکھا ہے کہ خسرو کا جتنا کلام فارسی میں ہے اتنا ہی برج بھاشا میں بھی ہے لیکن ان کے اس دعوے کی تصدیق اس لئے محال ہے کہ خسرو کا مدوّن کلام برج بھاشا میں نہیں ملتا۔ ان کا جو بھی ہندی کلام ہے وہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا ہے۔ خسرو سے پہلے ہندی شاعری کا کوئی نمونہ نہیں ملتا۔ خسرو نے فارسی کے ساتھ ہندی کو ملا کر شاعری کے ایسے دلکش نمونے پیش کئے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں۔ خود درباروں میں درباری شاعر تھے لیکن دربار سے باہر وہ پوری طرح عوام کے شاعر تھے۔ زندہ دلی اور خوش مزاجی ان میں کوٹ کُوٹ کر بھری تھی، تصوف نے ان کو ایسی نگاہ دی تھی کہ انہیں خدا کی بنائی ہوئی ہر مخلوق میں حسن ہی حسن نظر آتا تھا۔ ہندی اور فارسی کی آمیزش سے کہی گئی ان کی غزلیں عجیب رنگ پیش کرتی ہیں شاید ہی کوئی ہو جس نے ان کی غزل “زحال مسکیں مکن تغافل درائے نیناں بنائے بتیاں*کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگاے چھتیاں ” نہ سنی ہو اور اس کے پر سوز مگر وجد آمیز لطف سے محروم رہ گیا ہو۔

یہ زبان ریختہ کی پہلی غزل ہے جو امیر خسرو سے منسوب ہے جس کا پہلا مصرع فارسی میں ہے اور پھر دوسرا مصرع ہندوی میں۔ یہ ایک انتہائی مشہور عشقیہ غزل ہے اور عام طور سے اسے قوالی کے طور پر بھی گایا جاتا ہے

زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں

شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم بہ برد تسکں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چوں شمع سوزاں چوں ذرہ حیراں ز مہر آں مہ بگش تم آخر

نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں نہ آپ آوے نہ بھیجے پتیاں

بحق روز وصال دلبر کہ داد مارا غریب خسروؔ

سپیت من کے ورائے رکھوں جو جا کے پاؤں پیا کی کھتیاں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos