ملک بھر میں درجہ حرارت 18 مئی سے بڑھنے کی توقع ہے ۔ محکمہ موسمیات نے سندھ کے کچھ اضلاع میں 46 ڈگری سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت بڑھنے کی پیش گوئی کی ہے۔ پارہ بڑھنے سے خدشہ ہے کہ گرمی سے نبرد آزما ہونے والوں کو پہنچنے والے مصائب کے علاوہ ملک کے آبی ذخائر بھی دباؤ کا شکار ہوں گے اور اس کے نتیجے میں فصلیں، سبزیاں اور پھلوں کی پیداوار متاثر ہو سکتی ہے۔ محکمہ موسمیات نے کہا کہ توانائی اور پانی کی طلب بڑھے گی، اور ساتھ انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا درست استعمال کیا جائے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب موسمیاتی تبدیلی کا حصہ ہے جسے پاکستان دور کرنے کی خواہش کر کے بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے بجائے، جیسا کہ ہم باہمی تعاون کے ساتھ بین الاقوامی اقدامات کے ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ کی موجودہ سطح کو نیچے لائیں گے، ملک کو اس سے نمٹنے کے طریقے سیکھنے ہوں گے، جنوبی ایشیا میں گرمی کی لہریں زیادہ شدید ہوتی جا رہی ہیں، اور تواقعات کے برعکس اپنے وقت سے پہلے آجاتی ہیں ۔
اگرچہ پاکستان سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک میں شامل نہیں ہے، لیکن اس نے بدلتی ہوئی آب و ہوا اور حرارتی دنیا کے شدید اثرات کا خمیازہ اٹھایا ہے۔ بار بار، ترقی پذیر ممالک کے حکام نے مطالبہ کیا ہے، جیسا کہ انہیں چاہیے، دنیا کے سب سے بڑے اخراج کرنے والوں کے ذریعے ان کے ممالک کو ہونے والے نقصان کے لیے معاوضہ دیا جائے۔ لیکن ہماری ذمہ داری یہیں ختم نہیں ہوتی۔ پاکستان کے اندر بھی آلودگی پر قابو نہیں پایا گیا۔
اردو اور انگریزی میگزین آن لائن حاصل کرنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں
https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd
حکومت گندے ایندھن سے توانائی حاصل کرنا جاری رکھے ہوئے ہے اور شہر وں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر ہم ایک ایسے مستقبل کا تصور کرنا چاہتے ہیں جہاں پاکستان رہنے کے قابل جگہ ہو تو آلودگی کو ختم ہونا چاہیے۔ ہمارے پالیسی سازوں کو تعمیر، توانائی اور پانی کے بارے میں فیصلے کرتے وقت انتہائی حالات کا خیال رکھنا چاہیے۔ شہر کے منصوبہ سازوں کو ایسے وسائل استعمال کرنے کے بارے میں سوچنا چاہیے جو لچکدار ہوں، کم کاربن فوٹ پرنٹ ہوں اور جو گردونواح میں ٹھنڈک کا اثر ڈالیں۔ درختوں کی کٹائی کو روکنا چاہیے اور مزید درختوں کو اُگانے کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔ تاکہ آب وہوا میں ٹھنڈک پیدا ہوا۔ اُن علاقوں کے نسبت جہاں درخت نہیں ہوتے یا کم ہوتے ہیں ، وہ علاقے جہاں درخت مناسب مقدار میں ہوتے ہیں کا درجہ حرارت کم ہوتا ہے۔ ہر سال، ہم میں سے غریب ترین لوگ ہیٹ ویوز کے دوران بے تحاشہ نقصان اٹھاتے ہیں، جب کہ جو لوگ اس کی استطاعت رکھتے ہیں وہ آلودگی پھیلانے والے کولنگ سسٹم پر خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے حکام کو ان حقائق سے بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور ان کے اثرات کو مستقبل میں کوئی دور کی بات نہ سمجھیں۔