آرٹیکل 240 ب اور پوسٹس کی غیر قانونی تخلیق

[post-views]
[post-views]

طارق محمود اعوان

پاکستان کے پارلیمانی نظام میں ایک بنیادی تضاد پایا جاتا ہے۔ پارلیمانی طرزِ حکومت میں ایگزیکٹو اپنی حیثیت براہِ راست عوام سے نہیں بلکہ اسمبلی کے انتخاب کے ذریعے حاصل کرتا ہے۔ اس لئے اس کے اختیارات بالواسطہ ہوتے ہیں اور اسے اسمبلی کے اعتماد اور اختیار کے تابع رہنا چاہیے۔ اس کے برعکس، امریکہ جیسے صدارتی نظام میں ایگزیکٹو براہِ راست عوام سے منتخب ہوتا ہے اور وسیع تر اختیارات رکھتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایگزیکٹو اس طرح برتاؤ کرتا ہے جیسے وہ براہِ راست عوام سے منتخب ہو کر آیا ہو اور اپنی مرضی سے وسیع اختیارات استعمال کرسکتا ہو۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پارلیمانی بالادستی کمزور ہوتی ہے بلکہ آئینی حدود بھی دھندلا جاتی ہیں اور نظام ایک ایسے غیر واضح ڈھانچے میں تبدیل ہوجاتا ہے جو نہ خالصتاً پارلیمانی ہے اور نہ ہی صدارتی۔

پاکستان کا آئین اس بات پر بھی بالکل واضح ہے کہ صوبائی خدمات اور عہدے کس کے اختیار میں تخلیق کیے جائیں گے۔ آئین کے آرٹیکل 240 ب کے مطابق صوبائی ملازمتوں پر تقرریاں اور اُن کی شرائط و ضوابط ’’صوبائی اسمبلی کے کسی قانون یا اُس کے تحت‘‘ متعین ہوں گی۔ یہ شق محض رسمی نہیں بلکہ صوبائی اسمبلی کی اعلیٰ ترین قانون سازانہ حیثیت کی تصدیق ہے۔ اس سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ پنجاب میں خدمات اور عہدے ایگزیکٹو نوٹیفیکیشنز، رولز آف بزنس یا انتظامی احکامات کے ذریعے قائم نہیں ہوسکتے۔ ان کے لیے لازمی طور پر قانون ساز اسمبلی کی منظوری اور باقاعدہ قانون کی پشت پناہی ہونی چاہیے۔

پنجاب سول سرونٹس ایکٹ 1974 کو اکثر صوبائی خدمات کے قانون سازی کے ڈھانچے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کا دائرہ محدود ہے۔ یہ ایکٹ بنیادی طور پر تقرری، تربیت، تبادلہ، ترقی اور ریٹائرمنٹ جیسے معاملات کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ یہ کسی نئی سروس کے قیام یا عہدوں کی تخلیق کی اجازت نہیں دیتا۔ لہٰذا اگرچہ یہ سروسز کے چند پہلوؤں کو منظم کرتا ہے، لیکن صوبے میں نئی سروسز کے قیام یا عہدوں کی تخلیق کے لیے مکمل قانونی فریم ورک فراہم نہیں کرتا۔ اس صورت میں آئین کے آرٹیکل 240 ب کی روح پوری نہیں ہوتی بلکہ صرف جزوی طور پر عملدرآمد ہوتا ہے۔

یہ خلا انتظامیہ کو ایک ایسا دائرہ فراہم کرتا ہے جو دراصل پنجاب اسمبلی کا حق ہے۔ آج نئے عہدے اکثر فنانس ڈیپارٹمنٹ اور ایس اینڈ جی اے ڈی کی منظوری سے بنائے جاتے ہیں اور بعد میں کابینہ کی توثیق حاصل کر لیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بجٹ یا ضمنی بجٹ کے ذریعے اسمبلی میں ان کے لیے فنڈز بھی رکھ دیے جاتے ہیں، لیکن یہ تمام اقدامات قانون سازی کا متبادل نہیں ہیں۔ کابینہ کی منظوری بھی کسی سروس یا عہدے کی تخلیق کو قانونی حیثیت نہیں دے سکتی کیونکہ کابینہ قانون ساز ادارہ نہیں ہے۔ اس کی اتھارٹی اسمبلی سے نکلتی ہے، اس پر بالادست نہیں۔

رولز آف بزنس 2011 کے غلط استعمال نے اس آئینی بحران کو مزید سنگین کردیا ہے۔ آئین کا آرٹیکل 139 رولز آف بزنس کو صرف دفتری کاموں کی تقسیم اور لین دین کے معاملات کو منظم کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ یہ محض انتظامی اوزار ہیں، قانون سازی نہیں۔ سپریم کورٹ نے ’’مصطفیٰ امپیکس کیس‘‘ میں واضح کیا کہ رولز آف بزنس قانون کا درجہ نہیں رکھتے اور قانون سازی کے اختیارات پر قبضہ نہیں کرسکتے۔ لہٰذا ان رولز کے تحت عہدے تخلیق یا ختم کرنا، پوسٹس کو اپ گریڈ یا ڈاؤن گریڈ کرنا یا وفاقی و صوبائی کیڈر کے لیے مخصوص کرنا آئینی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔

اسی طرح سالانہ بجٹ بل بھی عہدے تخلیق نہیں کرتا۔ یہ محض مالی وسائل مختص کرتا ہے۔ بجٹ میں دیے گئے ووٹ صرف اخراجات اور تنخواہوں کی منظوری ہوتے ہیں۔ اگر مالی منظوری کو قانون سازی کے مساوی قرار دیا جائے تو یہ اسمبلی کی آئینی حیثیت کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ آئین صاف طور پر کہتا ہے کہ مالی بل اخراجات کے لیے ہے جبکہ پوسٹس اور عہدے صرف قانون کے ذریعے بنائے جا سکتے ہیں۔

اکثر انتظامیہ اس رویے کا جواز ضرورت کے نام پر پیش کرتی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی، بحران یا نئے محکمے فوری ردعمل کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن آئینی طرزِ حکومت یہ تقاضا کرتی ہے کہ ایسی لچک بھی قانون کے ذریعے دی جائے۔ حل یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی ایک ’’کریئیشن آف پوسٹس ایکٹ‘‘ پاس کرے جس میں ایس اینڈ جی اے ڈی اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کو محدود دائرے میں روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کا اختیار دیا جائے۔ اس طرح قانون ساز بالادستی اور انتظامی سہولت دونوں اکٹھے چل سکتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک جامع ’’پنجاب سول سروسز (اسٹرکچر اینڈ کریئیشن) ایکٹ‘‘ بھی بنایا جاسکتا ہے۔ یہ قانون مختلف محکموں اور اداروں میںپوسٹس اور عہدوں کے قیام کے لیے عمومی طریقہ کار فراہم کرے گا اور اس بات کی وضاحت کرے گا کہ تفویض شدہ قانون سازی کس طرح کام کرے گی۔ اس طرح موجودہ غیر واضح نوٹیفیکیشنز کا خاتمہ ہوگا اور ایک آئینی وضاحت سامنے آئے گی۔

ایگزیکٹو اختیارات اور قانون ساز اتھارٹی کے درمیان فرق ہمیشہ نمایاں رہنا چاہیے۔ ایگزیکٹو کا کام صرف عملدرآمد ہے، تخلیق نہیں۔ جب ایگزیکٹو اسمبلی کی منظوری کے بغیر خدمات یا عہدے تخلیق کرتا ہے تو یہ فرق مٹ جاتا ہے اور پارلیمانی بالادستی کمزور ہو جاتی ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اسمبلی ہی اصل اختیار کا سرچشمہ ہے۔

مزید یہ کہ ایگزیکٹو نوٹیفیکیشنز پر انحصار استعماری وراثت کو زندہ رکھتا ہے۔ برطانوی راج کے دور میں سروسز مرکز سے بنائی جاتی تھیں اور صوبے محض ماتحتی کردار ادا کرتے تھے۔ پاکستان کا 1973 کا آئین اس وراثت کو ختم کرنے اور صوبائی اسمبلیوں کو بااختیار بنانے کے لیے لایا گیا تھا۔ آرٹیکل 240 ب اسی جذبے کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن دہائیوں بعد بھی پنجاب نوآبادیاتی طریقہ کار پر قائم ہے، جہاں غیر منتخب افسر شاہی اور انتظامی محکمے ڈھانچہ طے کرتے ہیں۔ یہ جمہوریت اور صوبائی خودمختاری دونوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔

سپریم کورٹ کی عدالتی نظیریں، بالخصوص مصطفیٰ امپیکس کیس، اس موقف کو مضبوط کرتی ہیں۔ عدالت نے واضح کیا کہ رولز آف بزنس قانون سازی کا درجہ اختیار نہیں کر سکتے۔ اس منطق کے تحت ایس اینڈ جی اے ڈی، فنانس ڈیپارٹمنٹ یا حتیٰ کہ کابینہ بھی وہ اختیارات استعمال نہیں کر سکتی جو صرف اسمبلی کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔

نتیجتاً، صوبائی خدمات اور عہدوں کی تخلیق ایک ایسا معاملہ ہے جو خالصتاً قانون سازی کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، نہ کہ انتظامی سہولت کے۔ آرٹیکل 240 ب بالکل واضح ہے کہ خدمات اور عہدے صرف اور صرف ’’اسمبلی کے کسی قانون یا اُس کے تحت‘‘ ہی بن سکتے ہیں۔ موجودہ طریقہ کار جس میں رولز، نوٹیفیکیشنز یا کابینہ کی منظوری پر انحصار کیا جاتا ہے، آئینی طور پر کمزور اور جمہوری طور پر ناقابلِ دفاع ہے۔ پنجاب اسمبلی کو اپنی اتھارٹی واپس لینا ہوگی اور جامع قانون سازی کے ذریعے خدمات اور عہدوں کے قیام کا فریم ورک تیار کرنا ہوگا۔ صرف اسی طرح پنجاب آئینی تقاضوں کی پاسداری کرسکتا ہے، صوبائی خودمختاری کا تحفظ کرسکتا ہے اور پارلیمانی جمہوریت کو حقیقی معنوں میں مضبوط بنا سکتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos