Premium Content

آرزو ہے وفا کرے کوئی

Print Friendly, PDF & Email

بلبل ہند، فصیح الملک نواب مرزا داغؔ وہ عظیم المرتبت شاعر ہیں جنہوں نے اردو غزل کو اس کی حرماں نصیبی سے نکال کر محبت کے وہ ترانے گائے جو اردو غزل کے لیے نئے تھے۔ ان سے پہلے غزل ہجر کی تڑپ سے یا پھر تخیل کی بے لگام اڑانوں سے عبارت تھی۔ داغ ؔنے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعہ معلیٰ کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی جس کی داغ بیل خود داغؔ کے استاد شیخ ابراہیم ذوقؔ رکھ گئے تھے۔ نیا اسلوب سارے ہندوستان میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں لوگوں نے اس کی پیروی کی اور ان کے شاگرد بن گئے۔ زبان کو اس کی موجودہ شکل میں ہم تک پہنچانے کا سہرا بھی داغؔ کے سر ہے۔ داغؔ ایسے شاعر اور فنکار ہیں جو اہنے فکر و فن، شعر و سخن اور زبان و ادب کی تاریخی خدمات کے لئے کبھی فراموش نہیں کئے جائیں گے۔

آرزو ہے وفا کرے کوئی
جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

گر مرض ہو دوا کرے کوئی
مرنے والے کا کیا کرے کوئی

کوستے ہیں جلے ہوئے کیا کیا
اپنے حق میں دعا کرے کوئی

ان سے سب اپنی اپنی کہتے ہیں
میرا مطلب ادا کرے کوئی

چاہ سے آپ کو تو نفرت ہے
مجھ کو چاہے خدا کرے کوئی

اس گلے کو گلہ نہیں کہتے
گر مزے کا گلا کرے کوئی

یہ ملی داد رنج فرقت کی
اور دل کا کہا کرے کوئی

تم سراپا ہو صورت تصویر
تم سے پھر بات کیا کرے کوئی

کہتے ہیں ہم نہیں خدائے کریم
کیوں ہماری خطا کرے کوئی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی

اس جفا پر تمہیں تمنا ہے
کہ مری التجا کرے کوئی

منہ لگاتے ہی داغؔ اترایا
لطف ہے پھر جفا کرے کوئی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos