احمد فراز کی شاعری جن دو بنیادی جذبوں، رویوں اور تیوروں سے مل کرتیار ہوتی ہے وہ احتجاج، مزاحمت اور رومان ہیں۔ ان کی شاعری سے ایک رومانی، ایک نوکلاسیکی، ایک جدید اور ایک باغی شاعر کی تصویر بنتی ہے۔ انہوں نے عشق، محبت اور محبوب سے جڑے ہوئے ایسے باریک احساسات اور جذبوں کو شاعری کی زبان دی ہے جو ان سے پہلے تک ان چھوے تھے۔
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامین وفا
پر کتاب عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو
اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں
ڈوبنے والوں کو زیر آب مت دیکھا کرو
مے کدے میں کیا تکلف مے کشی میں کیا حجاب
بزم ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو
ہم سے درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح
ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو
مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں
یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو
تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ
جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو