ادارتی تجزیہ
پاکستان کے احتسابی نظام کو ایک نئی تنازعے نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ معاملہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے درمیان 2024-25 کے وفاقی آڈٹ رپورٹس پر سنگین اختلافات کا ہے۔ اسپیکر نے ان رپورٹس کو طریقہ کار کی خلاف ورزیوں کے باعث واپس بھیج دیا ہے، جب کہ سبکدوش ہونے والے آڈیٹر جنرل نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ آئینی تقاضوں کی مکمل پاسداری کی گئی ہے۔
یہ تنازع گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا جب اسپیکر نے مالی سال 2023-24 کی آڈٹ رپورٹس واپس بھیج دیں۔ سیکرٹریٹ نے مؤقف اختیار کیا کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے وزارتِ پارلیمانی امور کو نظرانداز کر کے براہِ راست رپورٹس اپ لوڈ کر دیں اور انہیں پارلیمان میں باضابطہ پیش کرنے سے پہلے ہی عوامی سطح پر جاری کر دیا۔ قومی اسمبلی نے اسے “توہینِ ایوان” قرار دیا، جس سے ایک غیرمعمولی تصادم نے جنم لیا۔
جواب میں،آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے دفتر نے ان الزامات کو “گمراہ کن” قرار دیا اور وضاحت دی کہ رپورٹس آئینی طریقہ کار کے مطابق وزیرِاعظم کے ذریعے صدر کو بھیجی گئیں، جنہوں نے اپریل 2025 میں انہیں منظور کیا۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے مطابق یہ رپورٹس 13 اگست کو قومی اسمبلی میں پیش ہونا تھیں مگر اجلاس ملتوی ہونے کے باعث روک دی گئیں۔ سینٹ کو بھیجی گئی نقول تاحال سینٹ سیکرٹریٹ کے پاس موجود ہیں۔
اس تنازع کے مرکز میں وہ حیران کن اعداد و شمار ہیں جن میں 375,000 ارب روپے کی بے ضابطگیوں کا ذکر ہے—جو وفاقی بجٹ سے کہیں زیادہ اور پاکستان کی جی ڈی پی سے کئی گنا بڑا حجم ہے۔ ناقدین کے مطابق ایسے غیرمعمولی اعداد یا تو حسابی غلطی کی نشاندہی کرتے ہیں یا پھر آڈیٹر جنرل کے دفتر کی کسی قسم کی “فعالیت” کو ظاہر کرتے ہیں، جس سے اس اقدام کے پیچھے ارادوں پر سوالات اٹھے ہیں۔ سابق آڈیٹر جنرل آف پاکستان جاوید جہانگیر نے بھی ان اعداد و شمار اور رپورٹس کو پارلیمان سے پہلے شائع کرنے کے عمل پر سوالات اٹھائے ہیں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا کہنا ہے کہ کوئی غلطی نہیں کی گئی۔ وضاحت دی گئی کہ ایگزیکٹو سمری میں مختلف شعبوں کی بے ضابطگیوں کو اکٹھا کر کے پیش کیا گیا تاکہ اسٹیک ہولڈرز بہتر طور پر صورتحال سمجھ سکیں، اور معیار کی جانچ کے ذریعے درستگی کو یقینی بنایا گیا۔ تاہم، بنیادی الزام- رپورٹس کو پارلیمان میں پیش کرنے سے پہلے عام کیا گیا—ابھی تک غیر حل شدہ ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق یہ قبل از وقت انکشاف پارلیمانی استحقاق کو کمزور کرتا ہے۔
یہ تنازع نہایت نازک موقع پر سامنے آیا ہے کیونکہ موجودہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اپنی مدتِ ملازمت ایک ہفتے میں مکمل کر رہے ہیں۔ ان کے جانشین کا تقرر ہو چکا ہے اور اب وہ اس تنازع شدہ رپورٹوں کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ یہ واقعہ آئینی نگرانی اور پارلیمانی بالادستی کے درمیان نازک توازن کو اجاگر کرتا ہے اور پاکستان کے مالیاتی احتسابی ڈھانچے میں گہرے عدم اعتماد کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا یہ تنازع نظام کی اندرونی کمزوریوں کی علامت ہے یا محض ادارہ جاتی بالادستی کی جنگ۔ لیکن اس کا سیاسی وزن کسی طور نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایسے وقت میں جب معیشت شفاف حکمرانی کی متقاضی ہے، آڈٹ کے اعداد و شمار پر جھگڑے ادارہ جاتی اعتماد کو مزید کمزور کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے آڈٹ نظام کی آئندہ ساکھ اب اس بات پر منحصر ہے کہ نیا آڈیٹر جنرل کس تیزی سے اپنے دفتر اور پارلیمان کے درمیان اعتماد بحال کرتا ہے۔