ایک سائنسی مقالے کے مطابق بچپن میں لڑکے، لڑکیوں کے مقابلے میں زیادہ بولتے ہیں جس سے یہ عام تاثر زمین بوس ہو گیا ہے کہ ابتدائی زندگی میں خواتین کو مردوں پر زبان کی برتری حاصل ہوتی ہے۔
اس موضوع پر اب تک کی سب سے بڑی تحقیق کے بعد ’آئی سائنس‘ نامی جریدے میں شائع ہونے والے اس مقالے کے نتائج اس کے محقی قین کے لیے بھی حیران کن تھے۔
ان کے بقول ممکن ہے یہ ایک اہم صنفی امتیاز کا نتیجہ ہو جو ہماری نسل کے ارتقا کے دوران سامنے آیا ہے۔
امریکی ریاست ٹی نیسی کی یونیورسٹی آف میم فس کے ڈی کمبرو اولر کی سربراہی میں ایک ٹیم نے ایک ایل گوردم کا استعمال کرتے ہوئے پانچ ہزار899 نوزائیدہ بچوں کی ساڑھے چار لاکھ گھنٹے سے زیادہ بلاتعطل آڈیو کے ڈیٹا سیٹ کا جائزہ لیا۔ اس ڈیٹا سیٹ کو دو سال میں آئی پوڈ سائز کے آلے کا استعمال کرتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا تھا۔
اولر نے ایک بیان میں کہا، ’جہاں تک ہمیں علم ہے، زبان کی نشو و نما پر کیے گئے کسی بھی مطالعے کے لیے یہ سب سے بڑا نمونہ ہے۔
اگرچہ چھوٹے بچے بات نہیں کرتے، لیکن وہ بولنے سے قبل کی آوازیں نکالتے ہیں، مثلاً چیخیں، گڑگڑاہٹ، آواز کے ساتھ منہ سے تھوک نکالنا، اور بعد میں الفاظ جیسی آوازیں جیساکہ ’با‘ اور ’گا۔‘ ان آوازوں کو مجموعی طور پر ’پروٹوفون‘ کہا جاتا ہے جو بالآخر درست الفاظ اور جملے کا سبب بنتے ہیں۔
یہ خیال طویل عرصے سے سائنسی حلقوں میں غالب ہے کہ لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں جلد زبان سیکھتی ہیں، اور اس کے ساتھ یہ مفروضہ بھی ہے کہ بچپن میں لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ آوازیں نکالتی ہیں۔
تاہم نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے سال لڑکوں نے 10 فیصد زیادہ آوازیں نکالیں، اس کے بعد لڑکیوں نے دوسرے سال تک سات فیصد زیادہ آوازیں نکالیں۔
نظریہ ارتقا
اس حقیقت کے باوجود فرق سامنے کہ دیکھ بھال کرنے والے بالغ دونوں برسوں میں لڑکوں کے مقابلے لڑکیوں سے زیادہ بات کرتے تھے۔
اس دریافت کے لیے ایک نظریہ یہ تھا کہ شیر خوار لڑکے زیادہ بولتے تھے کیونکہ وہ عام طور پر زیادہ فعال تھے۔ لیکن اعداد و شمار اس کی حمایت میں نہیں ہیں، کیونکہ تقریباً 16 ماہ تک لڑکوں کی آواز لڑکیوں سے زیادہ تھی، لیکن جسمانی سرگرمی زیادہ نہیں تھی۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ اس کے بجائے ان کے نتائج ایک ارتقائی نظریے میں سما سکتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ نوزائیدہ بچے اپنی دیکھ بھال کرنے والوں کو اپنے تندرست ہونے کے اشارے کے طور پر آوازیں نکالتے ہیں، جس کے بدلے وہ ان پر زیادہ توانائی صرف کرتے اور توجہ دیتے ہیں۔
ایک بہت بڑے تحقیقی ادارے کے مطابق، پیدائش کے بعد پہلے سال لڑکوں میں شرح اموات لڑکیوں کے مقابلے زیادہ ہوتی ہے، اور اس طرح یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ماضی قریب میں زیادہ بولنے والے لڑکوں میں زندہ رہنے اور اپنے جینز منتقل کرنے کا زیادہ امکان تھا۔
اولر نے کہا کہ پیدائش کے بعد دوسرے سال تک دونوں جنسوں میں اموات کی شرح میں ڈرامائی طور پر کمی آتی ہے اور ’لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے مخصوص اشارے کم ہوتے جاتے ہیں۔‘
اولر مستقبل میں اس بارے میں مزید تحقیق کا ارادہ رکھتے ہیں کہ دیکھ بھال کرنے والے بچے کی بات چیت کا جواب کیسے دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں توقع ہے کہ بچے کی آوازیں سن کر ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کے اندر شفقت کے جذبات امنڈ آتے ہیں اور وہ ان کی دیکھ بھال زیادہ توجہ سے کرتے ہیں۔