مسعود خالد خان
ریاست کے لیے مساجد اور مدارس سے ابھرنے والی مذہبی بیانیات کو منظم کرنا ہمیشہ ایک نہایت نازک حکمرانی کا چیلنج رہا ہے۔ دہائیوں سے منبر و محراب، جو دراصل اخلاقی و روحانی رہنمائی کے مراکز ہونے چاہئیں، اکثر نفرت، فرقہ واریت اور بغاوت کے پیغامات کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اشتعال انگیز خطبے ہوں یا ریاستی اتھارٹی کے خلاف تحریکیں، مذہب کے اس غلط استعمال نے پاکستان کی سیاسی و سماجی تاریخ پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ لال مسجد کا سانحہ اس بات کی دردناک یاد دہانی ہے کہ جب ریاستی اختیار مذہبی انتہاپسندی سے ٹکراتا ہے تو اس کے نتائج کتنے سنگین ہو سکتے ہیں۔
حال ہی میں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے خلاف ریاستی کارروائی نے ایک بار پھر اس نازک توازن کو اجاگر کیا ہے۔ بارہا سڑکوں پر تشدد، نفرت انگیز تقاریر اور قانون شکنی کے بعد ریاست نے آخرکار تنظیم پر پابندی عائد کر دی۔ مگر اس فیصلے کے بعد ایک نیا سوال پیدا ہوا — پنجاب میں ٹی ایل پی کے زیر انتظام 400 سے زائد مساجد اور مدارس کا کیا بنے گا؟ ابتدا میں حکومت نے ان اداروں کو محکمہ اوقاف کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن بریلوی علما کے شدید ردِعمل کے باعث، جو اس خدشے میں تھے کہ ان کی مساجد دیگر مسالک کے حوالے نہ کر دی جائیں، حکومت نے پالیسی پر نظرِثانی کی۔ اب ان مساجد و مدارس کی نگرانی معتدل علما، بالخصوص مفتی منیب الرحمن کی سربراہی میں سونپی گئی ہے، اور صوبے بھر کے 65,000 سے زائد ائمہ کے لیے ماہانہ وظیفہ دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔
یہ اقدام انتہا پسند عناصر کے اثر کو کم کرنے اور نظم و ضبط بحال کرنے کے لیے کیا گیا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ آئینی اور اخلاقی سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ ریاست مذہبی اداروں میں مداخلت کی کتنی حد تک جا سکتی ہے؟ کئی مسلم ممالک جیسے سعودی عرب، ایران اور ترکی میں ریاست مذہبی امور کی براہِ راست نگرانی کرتی ہے۔ وہاں ائمہ کو سرکاری طور پر مقرر کیا جاتا ہے، خطبوں کو جانچا جاتا ہے، اور مذہبی بیانیے کو ریاستی اصولوں سے ہم آہنگ رکھا جاتا ہے۔ یہ نظام استحکام تو فراہم کرتا ہے، مگر فکری تنوع اور اختلافِ رائے کی گنجائش کو محدود کر دیتا ہے۔
پاکستان چونکہ ایک متنوع مذہبی معاشرہ اور جمہوری ریاست ہے، اس لیے اسے انتہائی احتیاط سے قدم اٹھانا ہوگا۔ مذہبی بیانیے کو منظم کرنے کی کوششیں نئی نہیں۔ 1960 کی دہائی میں حکومتوں نے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کو محدود کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ وہ صرف اذان اور خطبۂ جمعہ تک محدود رہے۔ بعد ازاں نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کی رجسٹریشن اور نگرانی کا منصوبہ بنایا گیا۔ تاہم، ان اقدامات کے باوجود، مذہبی شدت پسندی کے اثرات آج بھی موجود ہیں، جیسا کہ ٹی ایل پی کی سڑکوں پر طاقت اور بعض مبلغین کا اثر ظاہر کرتا ہے۔
ریاستی نگرانی کی ایک حد ہونا ضروری ہے، لیکن اس کی سرحد واضح ہونی چاہیے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نفرت انگیز تقریر اور تشدد سے شہریوں کا تحفظ کرے، مگر ساتھ ہی مذہبی آزادی کا احترام بھی لازمی ہے۔ جہاں علما یا ادارے کسی فرقے، مذہب یا گروہ کے خلاف نفرت یا بغاوت کو ہوا دیتے ہیں، وہاں ریاستی کارروائی نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر اقدامات اُس وقت کیے جاتے ہیں جب حالات بگڑ چکے ہوتے ہیں، بجائے اس کے کہ پیشگی مکالمے اور نگرانی کے ذریعے تنازعات کو روکا جائے۔
ریاست کو چاہیے کہ وہ مذہبی رسومات یا فکری تعبیرات میں غیر ضروری مداخلت نہ کرے۔ ہر خطبہ یا مذہبی بیان کو ریاستی منظوری کا پابند بنانا مناسب نہیں۔ جب تک کوئی بیان تشدد کو ہوا نہیں دیتا، ریاست کو رائے کی آزادی برداشت کرنی چاہیے۔ زیادہ مداخلت مذہب کو سیاست زدہ بنا سکتی ہے اور ان طبقات کو مزید حاشیے پر دھکیل سکتی ہے جو پہلے ہی احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ مقصد مذہب کو خاموش کرنا نہیں بلکہ اسے سیاسی یا پرتشدد مفادات کے لیے استعمال ہونے سے روکنا ہے۔
اس نازک توازن کو برقرار رکھنے کے لیے مکالمہ، مشاورت اور اتفاقِ رائے پر مبنی ایک فریم ورک کی ضرورت ہے۔ باوقار علما، مذہبی کونسلوں اور کمیونٹی رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر مذہبی خطابت کے لیے قومی ضابطہ اخلاق وضع کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ائمہ اور مدرسہ اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام متعارف کرائے جائیں تاکہ وہ جدید تعلیمی تقاضوں، آئینی اقدار، شہری ذمہ داریوں اور سماجی ہم آہنگی سے واقف ہوں۔
آخرکار ریاست کی اصل طاقت انصاف اور توازن میں ہے، نہ کہ جبر میں۔ جہاں ضرورت ہو وہاں اسے قانون شکنوں کے خلاف بھرپور اقدام اٹھانا چاہیے، مگر دیرپا امن اسی وقت ممکن ہے جب مذہبی قیادت خود اپنی اخلاقی ذمہ داری کو سمجھے اور اتحاد و رواداری کا پیغام دے۔ پاکستان کی مساجد اور مدارس یا تو یکجہتی کے قلعے بن سکتے ہیں یا تقسیم کے میدان—یہ فیصلہ ریاست کی دانشمندانہ پالیسی پر منحصر ہے۔
مذہبی آزادی اور قومی استحکام ایک دوسرے کی ضد نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ضامن ہیں، بشرطِ یہ کہ ریاست مذہب کا احترام کرے اور ساتھ ہی کسی کو بھی اس کے ذریعے معاشرے کو تقسیم کرنے یا ریاستی اختیار کو چیلنج کرنے کی اجازت نہ دے۔ پاکستان کا جمہوری اور پرامن مستقبل اسی توازن کے قیام میں مضمر ہے — ایمان اور حکمرانی، مسجد اور ریاست کے درمیان۔













